یمن: جنوبی علاقے کے باغیوں نے بھی خود مختاری کا اعلان کردیا

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2020
حوثی باغیوں کے بعد حکومت کو اتحادی باغیوں کے ساتھ مشکلات کا سامنا رہا ہے — فائل/فوٹؤ:اے ایف پی
حوثی باغیوں کے بعد حکومت کو اتحادی باغیوں کے ساتھ مشکلات کا سامنا رہا ہے — فائل/فوٹؤ:اے ایف پی

یمن کی حکومت کے لیے بحران مزید سنگین ہوگیا ہے جہاں حوثی باغیوں کے بعد ملک کے جنوبی علاقے میں بھی باغیوں نے اتحاد اور امن معاہدے کو ختم کرکے اپنی حکومت کا اعلان کردیا جبکہ سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادیون نے اس اعلان کو مسترد کردیا۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ساؤدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہوئی ہے اور جنوبی علاقے کے معاملات کے خلاف سازش کررہی ہے۔

ایس ٹی سی نے حکومت کو امن معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اپنی خود مختار حکومت بنانے کا اعلان کردیا جس کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیں:یمنی حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یمن کی حکومت نے اس قدم کی مذمت کی اور کہا کہ جنوب میں آزادی کے لیے کوششیں کرنے والے لوگ تباہ کن اور خطرناک نتائج کے ذمہ دار ہوں گے۔

سعودی عرب کی سربراہی میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے والے اتحاد میں دراڑ کی بڑی وجہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث حوثی باغیوں کے ساتھ یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جبکہ حوثی باغیوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔

یاد رہے کہ یمن کی حکومت اور ایس ٹی سی کے اتحاد میں گزشتہ برس بھی سنگین اختلافات ہوگئے تھے تاہم متحدہ عرب امارات اور سعودی حکومت کی کوششوں سے ریاض میں دونوں فریقین کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا۔

ایس ٹی سی نے گزشتہ برس اگست میں یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جس کو خانہ جنگی کے اندر خانہ جنگی سے تعبیر کیا گیا تھا۔

سعودی دارالحکومت میں طے پانے والا معاہدہ جنوبی علاقے کے باغیوں کو حکومت میں برابر حصہ دینے اور فوج کی از سر نو تنظیم میں ناکامی کے باعث جلد ہی غیر مؤثر ہوگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ایس ٹی سی نے اپنے بیان میں اعلان کیا تھا کہ وہ جنوبی علاقوں میں حکومت بنارہے ہیں جس کا آغاز 25 اپریل 2020 کی درمیانی شب سے ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:یمن کے مستقبل میں حوثی باغیوں کا کردار ہوگا، متحدہ عرب امارات

بیان میں کہا گیا تھا کہ 'ایک خود مختار کمیٹی کونسل کی صدارت کی جانب سے دیے گئے احکامات کی روشنی میں کام شروع کرے گی'۔

عدن کے رہائشیوں کی جانب سے موصول ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ شہر میں ایس ٹی سی کی فورسز کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔

باغیوں کے ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے مرکزی بینک اور عدن کی بندرگاہ سمیت حکومت کے تمام دفاتر میں چیک پوائنٹس بنادیے ہیں۔

عدن میں شہر میں ایس ٹی سی کے جھنڈے لگائی گاڑیوں کی لمبی قطاریں موجود ہیں لیکن سیاسی حوالے سے پورے جنوبی علاقے کے معاملات مزید گھمبیر ہیں کیونکہ دیگر شہروں نے ان کی خود مختاری کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ منسلک رہنے کا کہا ہے۔

یمن کے وزیر خارجہ محمد الہادرامی کا کہنا تھا کہ ایس ٹی سی کا یہ قدم 'گزشتہ اگست سے جاری مسلح بغاوت اور ریاض معاہدے کو مسترد کرنے کا تسلسل ہے'۔

خیال رہے کہ یمن میں گزشتہ 5 برسوں کے دوران حکومت اور حوچی باغیوں کے درمیان لڑائی میں 10 ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ رواں ماہ کے اوائل میں حضر موت کے علاقے میں کورونا وائرس کا پہلا کیس بھی رپورٹ ہوا تھا جو جنوبی باغیوں کے زیر اثر علاقہ ہے۔

ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کے ساتھ ساتھ رواں ماہ سیلاب سے کم از کم 21 شہری ہلاک ہوئے اور عدن شہر میں کئی گھر اور سڑکیں بھی تباہ ہوئیں۔

مزید پڑھیں:متحدہ عرب امارات کا یمن میں فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ

ایس ٹی سی کو متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے جبکہ متحدہ عرب امارات بھی باغیوں کی طرح اخوان المسلمون اور یمن کی اخوان جماعت الاصلاح کے خلاف سخت مؤقف رکھتا ہے جس کا نمائندہ تسلیم شدہ حکومت میں شامل ہے۔

سعودی اتحاد نے خومختاری کے اعلان کو مسترد کردیا

یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے والے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد نے جنوبی علاقے میں باغیوں کی جانب سے خود مختار حکومت کے اعلامیے کو مسترد کردیا۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اتحادیوں کا کہنا تھا کہ 'ایس ٹی سی کی جانب سے اسٹیٹ ایمرجنسی کے حیران کن اعلان کے بعد ہم ایک مرتبہ پھر ریاض معاہدے پر عمل درآمد پر زور دیتے ہیں'۔

اتحادیوں نے اپنے بیان میں کہا کہ 'اتحادیوں کا مطالبہ ہے کہ تخریبی کارروائیوں کو ختم کرکے فریقین معاہدے کی طرف واپس آجائیں'۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس اگست میں حکومت اور ایس ٹی سی کے درمیان خون ریز جھڑپین ہوئی تھیں اور ایس ٹی سی کی فورسز نے اتحادی فوج کو بے دخل کرکے عدن کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

اتحادی فوج نے فروری 2015 میں اس وقت عدن میں ایک بیس قائم کرلیا تھا جب صدر عبدالربی ہادی، حوثی باغیوں کے مرکز صنعا سے نکل کر یہاں پہنچے تھے۔

یمن کے جنوبی علاقے میں قبضے کی جنگ سے سعودی اتحاد کی قلعی بھی کھول دی تھی کیونکہ سعودی عرب یمنی حکومت جبکہ متحدہ عرب امارات ایس ٹی سی کی حمایت کررہے تھے۔

بعد ازاں ریاض میں ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا تھا جس سے یمن کی مکمل تقسیم رک گئی تھی اور یمن میں پھیلی ہوئی وسیع خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے بہتر اقدام قرار دیا گیا تھا۔

تاہم اختلافات جلد ہی سامنے آگئے جب جنوب میں غذائی اجناس کی کمی کی شکایات سامنے آئیں، کرنسی کی قدر میں گراؤٹ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے فنڈز کی کمی سامنے آئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں