لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی حکومت نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران 18ویں ترمیم کی طرف توجہ دلانے کے لیے پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنے غیرمعمولی اختلافات کو استعمال کیا ہے۔

یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حکمراں جماعت ایک بار پھر سرگرم نظر آنے والے اسد عمر کی قیادت میں 18ویں ترمیم کو زیرِ بحث لانے کو وقت کی اہم ضرورت ثابت کرنے میں ایڑی چوڑی کا زور لگا رہی ہے، وہی 18ویں ترمیم جسے ہم وطنوں کی ایک بڑی تعداد نے 'جمہوری قوتوں' (یہ خوش کن اصطلاح اکثر ان سیاستدانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو بیرونی قوتوں کے اثر و رسوخ سے پاک تصور کیے جاتے ہیں) کی اجتماعی عقلمندی قرار دیتے ہوئے خوش آئند تصور کیا تھا۔

جس لمحے یہ ترمیم منظور کی گئی تھی تب سے لے کر آج تک پیپلزپارٹی اس ترمیم کی محافظ اور اس کا دفاع کرتے چلی آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی کا ماننا ہے کہ صوبائی حقوق کے لیے یہ تاریخی جدوجہد ہے جو کسی معجزے سے کم نہیں۔ بلاشبہ پیپلزپارٹی نے اس کی تیاری میں مرکزی کردار کیا اور تب سے اب تک اس کردار کو ادا کرنے کے لیے تعریفیں بھی سمیٹیں۔

عرصہ دراز سے یہ خیال پیش کیا جاتا رہا ہے کہ یہ ترمیم ملک میں بنیادی تقسیمی نکتہ بنی ہوئی ہے۔ یہ تصور ان شواہد پر مبنی ہے جو یہ دکھاتے ہیں کہ کس طرح چند گروہ اس بنیادی قانون سے پریشان اور ناخوش ہیں۔ اس طرح مرکزیت کے حامیوں اور منتخب نمائندوں یعنی سیاستدانوں کے ذریعے عدم مرکزیت کی حمایت کرنے والوں میں تقسیم کا پتا چلتا ہے۔

پی ٹی آئی کے چند حامی مرکزیت پر مبنی نظام کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے شور مچاتے چلے آ رہے ہیں۔ مثلاً عمران خان کے کیمپ میں شامل رہنے والے ایک پرانے کارکن نے اس ہفتے لاہور میں بڑے ہی جذباتی انداز میں کہا کہ زراعت کے شعبہ کو صوبوں سے لے کر دوبارہ وفاقی حکومت کے حوالے کردیا جائے۔ اس شخصیت نے اپنے مؤقف کی حمایت میں کئی ملکوں کے حوالے بھی دیے کیونکہ ظاہر ہے کہ انہیں اس بات کا اطمینان تھا کہ پاکستان کے تناظر میں زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جو اس کے حقیقی انتظامی افراد کو سونپ دی جائے تو یہ عمل صوبائیت بمقابلہ مرکز کے مباحثے کا پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دے گا۔

18ویں ترمیم کی کمزوری سامنے آنے کے لیے بس اس ایک جھٹکے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف اسلام آباد کی پشت پناہی رکھنے والے حملہ آور اس نظام کے قلب کو ہدف بنا سکتے ہیں جو بظاہر صوبائی خودمختاری کے تصورات کو جنم دینے والے نظریے کا حامل ہے۔

ایک یہ بھی تنقید درست اور مسلسل سننے کو ملتی ہے کہ جو لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں وہ ایسے وقت میں کہاں غائب ہوگئے جب بات ان سے نچلی سطح پر اختیارات اور طاقت کی منتقلی کی آئی ہے۔

صوبائی حکومتیں بھی مقامی حکومتوں کو اختیار کی منتقلی کرنے سے گریزاں نظر آتی ہیں، اس کے پیچھے ہر صوبے میں الگ وجوہات ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جہاں سیاسی جماعتوں کو اپنے دفاع میں مشکل پیش آسکتی ہے، ٹھیک ویسے ہی جس طرح پیپلزپارٹی اور 18ویں ترمیم کے حامیوں کو ان لوگوں کے سامنے مشکلات کا سامنا ہے جو یہ کہتے تھے کہ آپ اپنے اختیارات کو نیچے تک منتقل کریں۔

پی ٹی آئی غائب گروہ نہیں ہے جو خود کو ظاہر کرنے سے گھبرائے گا یا پھر خفیہ طور پر اپنا کام کرنا چاہے گا۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہے جس کے پاس مخالفین کو اپنی برتری دکھانے کے لیے اعداد ہیں اور یہ عوامی رائے میں انہیں شکست دینے کے لیے ذرا بھی دیر نہیں کرنا چاہے گی۔

پھر حکمراں جماعت کے پاس اتحادی بھی ہیں۔ اس کے پاس ان لوگوں کے خلاف زیادہ سیاسی حمایت حاصل کرنے کی صلاحیت ہے جو برسوں سے اپنی ساکھ کی خرابی کے لیے چلائی جانے والی مہم کی وجہ سے پہلے ہی تکلیف سے دوچار ہیں۔

'نامناسب' 18ویں ترمیم کے خلاف مہم میں حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو ایک ایسی صورتحال میں زیر کیا جاسکتا ہے کہ جس میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں ایسے دوراہے پر پھنس جائیں اور ایسے ایجنٹوں کی راہ تکنا شروع کردیں جو انہیں سیاسی تحفظ کی گارنٹی دے سکتا ہو۔

عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ میاں افتخار حسین نے 18ویں ترمیم کی حمایت پر اٹل رہنے کا اظہار کیا ہے۔ ایسی ہی چند دیگر آوازیں بھی ہیں جنہوں نے حکمراں جماعتوں کو ایسے کسی ایڈوینچر سے باز رہنے کے لیے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے۔

مجموعی منظرنامے کی بات کریں تو دفاع کے لیے پیپلزپارٹی کا پختہ عزم ہی رہ جاتا ہے۔ یہی وہ تنہائی ہے جس سے بچنے کا مشورہ ڈاکٹروں نے بلاول بھٹو زرداری کو دیا ہوگا، مگر یہ بڑی حد تک کام پیپلزپارٹی کے رہنما کے بس سے باہر ہے۔ البتہ وہ عوام کے آگے قابلِ قدر جذباتی اظہار سے زیادہ اپنے دلائل پیش کرنے کے ہنر میں نکھار لانے پر دھیان ضرور دے سکتے ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا انحصار سندھ میں موجود تحریکِ انصاف کے ذمہ داران پر زیادہ ہے جو شہری عہدیداران اور اندرونِ علاقوں میں سماجی دُوری کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے بلاول کی مدد کررہے ہیں۔

جب بلاول بھٹو زرداری یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی 18ویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دیں گے تو اس طرح اپنے ووٹروں کے دل جیتنے کی امیدیں ضرور بڑھ جاتی ہوں گی۔ وہ پیپلزپارٹی کی فخریہ تخلیق کو نقصان پہنچانے کی کوشش پر جیل بھرنے سے متعلق اپنے جوشیلے بیانوں کے ساتھ جئے بھٹو کے چند نعروں کو جوڑ سکتے ہیں۔ مگر سچ پوچھیے تو یہ کافی نہیں اور وہ اس سے بہتر کرسکتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے سیاستدان اب صرف اس سادہ سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں کہ 18ویں ترمیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر کوئی مباحثہ نہیں ہوسکتا کیونکہ جب تک پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا تب تک کوئی ترمیم منظور نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر اس سوال کو الٹا کیا جائے اور کہا جائے کہ چونکہ آپ بات کرنے کی اجازت ہی نہیں دے رہے ہیں ایسے میں کسی ترمیم کی منظوری یا اتفاق رائے کیسے ممکن ہوسکتا ہے، تو کیسا رہے گا؟

پیپلزپارٹی کی قیادت جتنی جلدی ٹھوس دلیل تیار کرے اتنا ہی اس کے لیے بہتر ہوگا۔ سیاسی ضرورت کے تحت ایک طرف خود کو مظلوم ظاہر کرنے یا پھر چند قوتوں کی جانب سے ہونے والی پارٹی کی تصویر کشی کے خلاف نعروں کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے۔ مگر بلاول بھٹو زرداری کے پاس ممنوعہ دستوری میدان میں 18ویں ترمیم پر پی ٹی آئی حملہ آواروں کی طرف سے کی جانے والی گولہ باری کی جوابی دلیل کا ہونا بہت ضروری ہے۔

آپ ایک محدود وقت تک ہی کسی بات پر بضد ہونے اور فخر کا مظاہرہ کرسکتے اور مظلومیت کا پتہ کھیل سکتے ہیں، مگر پھر ایسا وقت آتا ہے جس میں کوئی بھی سیاسی جماعت، اور بالخصوص قومی سیاست میں کسی حد تک بچ بچاؤ کے لیے سرپرستوں اور نعمتوں کی شدید خواہش میں مبتلا ہوجانے والی پیپلزپارٹی جیسی جماعت تو بالکل بھی مذاکرات سے دُور نہیں بھاگ سکتی۔

بلاول بھٹو زرداری اس بات کی تصدیق ان کے مصالحت پسند والد کے تجربے سے کرسکتے ہیں۔ جب کوئی رہنما ایک بار مفاہمت اور مذاکرات کی طرف جھکاؤ ظاہر کردیتا ہے تو پھر وہ ان کے پاس آنے والے لوگوں سے منہ نہیں موڑ سکتا جو کسی اہم اور ان کے خیال میں حل طلب معاملے پر بات چیت کرنا چاہتے ہوں۔


یہ مضمون یکم مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں