کنفیوشس نے کہا تھا کہ انتقام کے راستے پر چلنے سے پہلے 2 قبریں کھود لو۔ عظیم چینی مفکر کا یہ قول تیل قیمتوں کی حالیہ جنگ کے دوران ذہن میں گونجتا رہا اور اس جنگ کے نتائج پر نظر رہی۔ شاید تیل قیمتوں کی جنگ کے ساتھ کنفیوشس کے اس قول کا تال میل فوری طور پر سمجھ نہ آئے اس لیے ایک کہانی بیان کرنا پڑے گی۔

عالمی سطح پر طلب میں نمایاں کمی کی وجہ سے تیل کی پیداوار کم کرنے کی تجویز اوپیک پلس کے اجلاس میں 6 مارچ کو زیرِ بحث آئی۔ اس اجلاس میں اوپیک پلس ممالک کسی بھی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے کیونکہ اس اجلاس سے کچھ دیر پہلے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کا فون پر رابطہ ہوا تھا اور اس میں اہم ترین بات یہ تھی کہ یہ گفتگو 2 سربراہانِ حکومت کے درمیان روایتی سفارتی آداب سے ہٹ گئی تھی۔

عرب ویب سائٹ مڈل ایس آئی کے مطابق اس فون کال میں دونوں رہنما ایک دوسرے سے کافی ناراض نظر آئے۔ سعودی ولی عہد اس فون کال کے دوران بہت جارحانہ موڈ میں تھے اور پیداوار کم کرنے کا معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں محمد بن سلمان نے روسی صدر کو دھمکی دی کہ وہ پرائس وار شروع کردیں گے۔ روسی صدر اس دباؤ میں نہیں آئے اور یوں فون پر ہونے والا یہ رابطہ انتہائی بدمزگی کے ماحول میں انجام کو پہنچا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سعودی ولی عہد نے صدر پیوٹن کے ساتھ فون پر رابطے سے پہلے وائٹ ہاؤس میں اپنے دوست اور صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر کے ساتھ صلاح مشورہ بھی کیا تھا۔ جارڈ کشنر نے سعودی ولی عہد کو صدر ٹرمپ کے ایما پر مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اوپیک پلس کے اجلاس میں سعودی عرب نے روس کو کونے میں دھکیلنے کی پوری کوشش کی لیکن تیل کی پیداوار میں مجموعی طور پر 15 لاکھ بیرل یومیہ کٹوتی کا معاہدہ طے نہیں پا سکا۔ جس کے بعد سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافے کا اعلان کرکے قیمتیں گرا دیں اور صدر ٹرمپ نے سعودی اقدام کی تعریف کی۔

اوپیک اجلاس کے موقعے پر سعودی اور روس کے وزرائے توانائی—رائٹرز
اوپیک اجلاس کے موقعے پر سعودی اور روس کے وزرائے توانائی—رائٹرز

صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس سستے تیل سے وہ امریکا کے ذخائر بھر دیں گے یوں ناصرف امریکی عوام کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا بلکہ قومی آئل انڈسٹری کو بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا توانائی کے لیے اب محتاج نہیں رہا اور ایک شاندار مقصد حاصل کرلیا ہے جس کے حصول کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔

شیل آئل کے مہنگے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی امریکی تیل کمپنیوں نے صدر ٹرمپ کے اس بیان پر شدید احتجاج کیا کیونکہ تیل قیمتوں کی جنگ اور اس کے نتیجے میں سستے تیل کی وجہ سے ان منصوبوں پر کی گئی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی تھی۔ امریکی تیل کمپنیوں کے احتجاج پر وائٹ ہاؤس کو اپنا مؤقف تبدیل کرنا پڑا۔

واشنگٹن، ریاض اور ماسکو کے درمیان فون پر رابطوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور 10 اپریل کو ماسکو نے کہا کہ صدر پیوٹن نے سعودی ولی عہد سے فون پر بات کی اور دونوں نے ماسکو-ریاض رابطوں کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔

12 اپریل کو صدر ٹرمپ، سعودی شاہ سلمان اور اور روسی صدر کے فون پر رابطے ہوئے اور 13 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر خبر دی کہ اوپیک پلس ممالک میں بڑا معاہدہ طے پاگیا ہے اور اس معاہدے سے امریکی تیل سیکٹر میں ہزاروں ملازمتیں بچ جائیں گی۔

وائٹ ہاؤس اور سعودی ولی عہد کا روس کو سبق سکھانے کا مشترکہ منصوبہ امریکا کے لیے الٹا پڑگیا اور اس کاروباری ہفتے کے پہلے روز امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار منفی ٹریڈنگ میں چلی گئی اور پیر کے روز کے سودے منفی 37.63 ڈالر فی بیرل پر بند ہوئے۔

اس کی وجہ مارکیٹ میں ضرورت سے زیادہ رسد بنی جو سعودی تیل کی پیداوار بڑھانے کا نتیجہ تھا۔ اس وجہ سے تیل ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ کم پڑگئی اور کمپنیاں خریداروں کو تیل اپنے اسٹوریج سے اٹھانے کے لیے خرچہ دینے پر مجبور ہوگئیں۔

بدھ کو امریکی تیل کی قیمت 20 ڈالر پر واپس آئی لیکن گلوبل بینچ مارک برینٹ کروڈ جو بین الاقوامی مارکیٹ میں 60 فیصد کا حجم رکھتا ہے، وہ بھی گر کر 1999ء کی کم ترین سطح پر آگیا۔ بدھ کو برینٹ کروڈ 15.98 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہوا اور امریکی صدر نے ایران کی کشتیوں کو نشانہ بنانے کا حکم دے کر تیل قیمتوں کو سہارا دینے کی کوشش کی جس پر بدھ کو برینٹ کروڈ کی ٹریڈنگ 21.50 ڈالر فی بیرل پر واپس آگئی۔

تیل قیمت کی یہ جنگ تیل برآمد کرنے والے ملکوں کو بھی مہنگی پڑی ہے۔ سعودی عرب، عرب امارات اور کویت کی معیشت کا انحصار ہی تیل کی برآمد پر ہے۔ عراق اور وینزویلا اس تیل قیمت کی جنگ کے نتیجے میں بدامنی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ افریقہ میں نائیجریا کی معیشت پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سست پڑ چکی ہے۔ امریکا اور کینیڈا اس بحران کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن اس بحران سے نکلنے کا عمل تکلیف دہ ہوگا۔

کورونا وائرس کی وبا اور اس کے نتیجے میں معاشی شٹ ڈاؤن تیل انڈسٹری کے بحران کو گہرا کر رہا ہے۔ امریکا، یورپ، بھارت اور چین نے ٹیل کو ذخیرہ کرنے کی جگہ کم پڑنے پر تیل کی شپمنٹس واپس بھیجنا شروع کردیں۔ چین نے اپریل اور مئی کے 10 سودے سعودی عرب کو واپس کردیے۔

عالمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ تیل کی طلب 2022ء کے اختتام تک منفی رہنے کا امکان ہے۔ عالمی تونائی ایجنسی تیل کی منفی ٹریڈنگ کا قبل از وقت اندازہ لگانے میں ناکام رہی تاہم ایجنسی نے خبردار کیا تھا کہ دنیا بھر میں آئل انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں ملازمین پر کورونا وائرس کے اثرات کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں۔

تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی معیشت زبردست خطرے سے دوچار ہے۔ امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے مطابق سعودی عرب کو بجٹ خسارے سے بچنے کے لیے تیل کی کم از کم قیمت 91 ڈالر فی بیرل پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح عمان 82 ڈالر، ابوظہبی 65 ڈالر، قطر 55 ڈالر، بحرین 96 ڈالر، عراق 60 ڈالر اور ایران کو تیل کی قیمت 195 ڈالر رکھنے کی ضرورت ہے۔

افریقہ میں الجزائر کو بجٹ ضروریات پوری کرنے کے لیے تیل کی قیمت 109 ڈالر فی بیرل، لیبیا کو 100 ڈالر، نائیجیریا کو 144 ڈالر، انگولا کو 155 ڈالر فی بیرل قیمت کی ضرورت ہے۔

اس سال کی بجٹ ضروریات کے لیے روس کو تیل کی قیمت 42 ڈالر، میکسیکو 49 ڈالر اور قازقستان کو 58 ڈالر فی بیرل رکھنے کی ضرورت ہے۔

امریکا 48 ڈالر، کینیڈا 60 ڈالر اور ناروے کو 27 ڈالر فی بیرل قیمت کی صورت میں انڈسٹری بچانے کی امید ہے۔

امریکا کی تیل انڈسٹری میں ایک کروڑ ملازمتوں میں سے کتنی متاثر ہوں گی ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔

روس اور سعودی عرب کی تیل جنگ نے انرجی مارکیٹ کو بھی شدید متاثر کیا ہے جو پہلے ہی کورونا کی وبا کی وجہ سے دباؤ میں تھی۔ تیل کمپنیاں امریکا کی جی ڈی پی میں 8 فیصد حصہ ڈالتی ہیں جبکہ ایس اینڈ پی فائیو ہنڈرڈ انڈیکس میں تیل کمپنیوں کا حصہ 2.6 فیصد ہے۔ تیل مارکیٹ کے اس بحران کا امریکی معیشت پر اثر 2020ء کے بعد بھی برقرار رہنے کا امکان ہے۔

روسی تیل کے بڑے خریدار چین اور یورپی یونین ہیں اور کورونا وائرس کی وبا سے یہ مارکیٹ بھی متاثر ہوئی لیکن تیل قیمتوں نے اس اثر کو گہرا کردیا ہے۔ روس کی کل برآمدات کا نصف تیل پر منحصر ہے۔ روس کو اس صورتحال میں 40 سے 50 ارب ڈالر بجٹ خسارے کا سامنا ہوسکتا ہے۔ روس کی جی ڈی پی میں تیل سیکٹر کا حصہ 30 فیصد ہے اور 10 لاکھ ملازمتیں خطرے میں ہیں۔

سعودی عرب کی برآمدات میں 70 فیصد حصہ تیل کا ہے اور سعودی عرب کا 500 ارب ڈالر کا ویلتھ فنڈ کچھ عرصے کے لیے اسے تیل قیمتوں کے بحران سے گزرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

سعودی عرب نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کورونا وائرس کی وبا کے دوران ملازمین کی 60 فیصد تنخواہیں ادا کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ بیل آؤٹ پیکج شاید پوری طرح قابلِ عمل نہیں رہا کیونکہ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی کے ملازمین کو صرف 10 فیصد تنخواہیں مل رہی ہیں۔ ہوٹل انڈسٹری کو ہسپتالوں میں تبدیل کیا گیا ہے لیکن انڈسٹری کو کوئی بیل آؤٹ پیکج دیا گیا اور نہ ہی اخراجات دیے جا رہے ہیں۔ مملکت میں کام کرنے والے مصر کے ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جارہی ہے اور جو سالانہ چھٹیوں پر ہیں انہیں تو ادائیگی بالکل نہیں کی جارہی ہیں۔

سعودی عرب یہ توقع کر رہا تھا کہ روس کے ساتھ پیداوار میں کمی کے معاہدے کے بعد تیل قیمتیں 40 ڈالر فی بیرل پر چلی جائیں گی، اگر تیل قیمت موجودہ سطح پر برقرار رہتی ہے تو سعودی عرب کو 40 ارب ڈالر ریونیو کمی کا سامنا ہوگا۔

روس کے ساتھ معاہدے سے پہلے ہی سعودی عرب نے اپنے اداروں کو اخراجات میں 30 فیصد کمی کی ہدایت کردی تھی۔ سعودی حکومت کو اپنے بڑے منصوبے روکنا پڑیں گے اور ولی عہد کا وژن 2030ء بھی رک جائے گا۔

سعودی تیل سیکٹر میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد ملازمت کر رہے ہیں۔ اخراجات کے لیے سعودی عرب کو ویلتھ فنڈز سے خرچ کرنا پڑے گا اور شہریوں کو بھی مدد دینا پڑے گی۔

معاشی بحران مزید گہرا ہونے کی صورت میں سعودی عرب میں بدامنی کا بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب کا معاشی بحران پورے خطے کو متاثر کرسکتا ہے۔ مصر، سوڈان، لبنان، شام اور تیونس میں سعودی معاشی بحران کے اثرات فوری محسوس کیے جائیں گے کیونکہ ان ملکوں کے لاکھوں افراد کا روزگار سعودی عرب میں ہے۔

مارکیٹ پر نظر رکھنے والے اداروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل قیمتوں کی جنگ میں فوری طور پر روس اور سعودی عرب دونوں فاتح نظر آتے ہیں کیونکہ دونوں کو امریکی شیل آئل عرصے سے کھٹک رہا تھا۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور سعودی عرب کی یہ خوشی عارضی ہے کیونکہ برینٹ کروڈ کی مارکیٹ بھی بچ نہیں پائے گی اور اگلے چند ہفتوں (مئی کے آخر یا جون کے آغاز) میں دنیا بھر میں تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہوجائے گی۔

سعودی عرب نے صرف اتنی ہوشیاری دکھائی کہ روس کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں اس نے پیداوار بڑھا کر دنیا بھر میں جہاں کہیں تیل کی طلب موجود تھی اپنا تیل بیچ ڈالا اور روس کے ساتھ معاہدے کے بعد تیل کی پیداوار کم کرلی۔ اب تیل پیداواری ملکوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پیداوار میں ایک اور بڑی کٹوتی پر اتفاق کریں اور اس مقصد کے حصول کی خاطر اوپیک پلس کا اگلا اجلاس 10 جون کو ہونا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر روس کو سبق سکھانے کے لیے سعودی عرب کو تیل قیمتوں کی جنگ میں دھکیلا تو قبر اپنی تیل انڈسٹری کے لیے بھی کھودی۔ اگر سعودی ولی عہد نے روسی صدر کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے تو نقصان خود بھی اٹھایا ہے۔ یوں کنفیوشس کا قول سچ ثابت ہوا کہ انتقام کے راستے پر چلنے سے پہلے 2 قبریں کھودو۔

تبصرے (1) بند ہیں

عثمان ارشد ملک سڈنی Apr 25, 2020 05:55am
پاکستان کی حکومت کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تیل خرید لیں ۔اس سے بعد میں زرمبادلہ کی بچت ہو گی اور حکومت کے اوپر سے ایک بڑا بوجھ کافی کم ہو جائے گا ۔