مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دنیا کو دکھانے والے فوٹوگرافرز نے ایوارڈ جیت لیا

اپ ڈیٹ 05 مئ 2020
یہ تصویر ڈار یاسین نے خواتین کے مظاہرے کے دوران لی تھی—فوٹو: اے پی
یہ تصویر ڈار یاسین نے خواتین کے مظاہرے کے دوران لی تھی—فوٹو: اے پی

اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم دنیا کو دکھانے والے تین کشمیری فوٹوگرافرز نے صحافت کا اعلیٰ ترین ایوارڈ جیت لیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے وابستہ تین فوٹوگرافرز چنی آنند، مختار خان اور ڈار یاسین نے اعلیٰ ترین صحافتی ایوارڈ پلٹزر حاصل کرلیا۔

تینوں فوٹوگرافرز کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو تصویری شکل میں دنیا کے سامنے لانے پر مذکورہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔

پلٹزر ایوارڈ امریکا کا اعلیٰ ترین و معتبر صحافتی ایوارڈ ہے، جو ہر سال صحافت اور ٹی وی ڈراما کی متعدد کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے۔

یہ تصویری ایوارڈ جیتنے والے مختار خان نے دسمبر 2019 میں شیخ سید عبدالقادر جیلانی کے مزار کے باہر کھینیچ تھی—فوٹو: اے پی
یہ تصویری ایوارڈ جیتنے والے مختار خان نے دسمبر 2019 میں شیخ سید عبدالقادر جیلانی کے مزار کے باہر کھینیچ تھی—فوٹو: اے پی

پلٹزر ایوارڈ صحافتی و ٹی وی ڈرامے جیسے شعبوں کی مجموعی طور پر 23 کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے اور تینوں کشمیری فوٹوگرافرز کو صحافت کے شعبے کی فیچر فوٹوگرافی کیٹیگری میں ایوارڈ دیا گیا۔

تینوں فوٹوگرافرز کو مجموعی طور پر ایک ہی ایوارڈ دیا گیا اور ایوارڈ میں ملنے والی رقم بھی مجموعی طور پر تینوں فوٹوگرافرز میں یکساں تقسیم کی جائے گی۔

پلٹزر ایوارڈ کی تقریب آن لائن منعقد کی گئی تھی اور جیتنے والوں کو ورچوئل انعامات سے نوازا گیا تاہم ادارہ جیتنے والے تمام افراد کو ایوارڈز اور رقم پہنچا دے گا۔

تینوں فوٹوگرافرز کو گزشتہ سال بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں نافذ کیے گئے کرفیو کے دوران بھارتی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر مظالم کی تصاویر سامنے لانے پر انہیں ایوارڈ سے نوازا گیا۔

تینوں فوٹوگرافرز نے سخت کرفیو اور لوگوں کے باہر نکلنے کے باوجود جان کی پرواہ کیے بغیر کیمروں کو چھپاتے ہوئے اور کئی کئی گھنٹوں تک ایک تصویر کا انتظار کرنے کے دوران بھارتی مظالم کی ایسی تصاویر سامنے لائے تھے جنہیں دیکھ کر دنیا اشکبار ہوگئی۔

اگست 2019 میں مختار خان نے یہ تصویر سری نگر میں کھینچی تھی—فوٹو: اے پی
اگست 2019 میں مختار خان نے یہ تصویر سری نگر میں کھینچی تھی—فوٹو: اے پی

تینوں فوٹوگرافرز نے درجنوں تصاویر کھینچی تھیں اور ادارے کی جانب سے شائع کیے گئے ان کے فیچرز پر انہیں ایوارڈ دیا گیا۔

کشمیری فوٹوگرافرز کے علاوہ مجموعی طور پر 23 کیٹیگریز میں پلٹزر ایوارڈز دیے گئے اور خبر رساں ادارے رائٹرز نے بریکنگ نیوز فوٹوگرافی کے شعبے میں ایوارڈ حاصل کیا۔

رائٹرز کو ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کے دوران کھینچی گئی تصاویر کو سامنے لانے پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اسی طرح امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کو پبلک سروس کی کیٹیگریز میں مشترکہ ایوارڈ بھی دیا گیا، علاوہ ازیں دونوں اداروں نے دوسری کیٹیگریز میں بھی ایوارڈز جیتے۔

بھارتی فوج کے تشدد سے زخمی ہونے والی خاتون کی تصویر ڈار یاسین نے جون 2019 میں سری نگر کے ہسپتال میں کھینچی تھی—فوٹو: اے پی
بھارتی فوج کے تشدد سے زخمی ہونے والی خاتون کی تصویر ڈار یاسین نے جون 2019 میں سری نگر کے ہسپتال میں کھینچی تھی—فوٹو: اے پی

تحقیقاتی رپورٹنگ کا ایوارڈ بھی نیویارک ٹائمز اور امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کو مشترک طور پر دیا گیا۔

ڈرامے اور کتابوں کے شعبے میں بھی پلٹزر ایوارڈز دیے گئے اور فکشن کی کیٹیگری میں امریکی لکھاری کولسن وائٹ ہیڈ کو ایوارڈ دیا گیا، انہوں نے دوسری بار ایوارڈ حاصل کیا اور مجموعی طور پر وہ اب تک کے چوتھے لکھاری ہیں جنہوں نے یہ ایوارڈ دوسری مرتبہ حاصل کیا۔

پلٹزر اکیڈمی نے معروف آنجھانی تحقیقاتی خاتون صحافی ایدا بی ویلز کو خصوصی ایوارڈ بھی دیا اور ادارے کی جانب سے ان کے ادارے کو 50 ہزار امریکی ڈالر کی رقم فراہم کی جائے گی۔

ایدا بی ویلز 1931 میں چل بسیں تھیں، انہوں نے امریکا میں سیاہ فام افراد کی غلامی کی تجارت اور سیاہ فام افراد کے خلاف نسلی تعصب سمیت دیگر اہم موصوعات پر تحقیقاتی رپورٹنگ کی تھی۔

سری نگر میں کرفیو کے دوران اگست 2019 میں لی گئی ڈار یاسین کی تصویر—فوٹو: اے پی
سری نگر میں کرفیو کے دوران اگست 2019 میں لی گئی ڈار یاسین کی تصویر—فوٹو: اے پی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں