اذیت اور تکلیف کے دریا سے گزر کر عمیرہ نے جب نوزائیدہ بیٹی کو سینے سے لگایا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس نے خدا کا شکر ادا کیا لیکن ساتھ ہی فکرمندی کا نشتر سا اس کے دل میں چُبھا۔

اسے یاد آیا کہ درد و کرب کے یہ لمحے ابھی تھمے نہیں ہیں، ابھی انہیں مزید انتظار کی سولی پر لٹکنا تھا۔ وہ اپنے شوہر کے چہرے پر فکرمندی دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹروں نے ماں اور نوزائیدہ بچی کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا تھا اور انہیں نتائج آنے تک مزید 2 دن ہسپتال میں رہنا تھا۔

عمیرہ پچھلے 2 ماہ میں بہت کم ہسپتال آئی تھی۔ زیادہ تر آن لائن مشوروں سے کام چل رہا تھا اور چونکہ اس کا کیس بھی نارمل اور کسی بھی قسم کی پیچیدگی سے پاک تھا لہٰذا اس کی ڈاکٹر مطمئن تھی۔ لیکن اب بچی کی پیدائش کے بعد حفظ ماتقدم کے طور پر ماں اور بچی دونوں کا ٹیسٹ کروایا گیا تھا۔ 2 دن بعد ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آئی اور عمیرہ بچی لیے گھر چلی گئی۔

لیکن کورونا کے اس وبائی دور میں ہر عورت عمیرہ جیسی خوش قسمت نہیں ہوتی، بہت سی خواتین کو ڈیلیوری کی پیچیدگیاں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں، ان کے آپریشن بھی ہوتے ہیں، کہیں کہیں انہیں طبّی امداد تک میسر نہیں آتی اور جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ مٹھی تھرپارکر میں پیش آیا۔ مٹھی کے قریب ایک گاؤں کی خاتون گلناز زوجہ صاحب ڈنو جو 3 بچوں کی ماں تھی۔ چوتھے بچے کی پیدائش کے لیے جب وہ مٹھی کے ہسپتال پہنچی تو ہسپتال والوں نے بتایا کہ اب یہاں صرف کورونا کے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ دیگر شعبے بند ہیں لہٰذا اس بدنصیب عورت کو کوئی طبّی امداد نہیں مل سکی اور وہ بدقسمت جان سے گزر گئی، ایک خاندان تباہ ہوگیا اور 3 بچے ماں سے محروم ہوگئے۔

غریب شوہر کی اتنی بھی استطاعت نہیں تھی کہ وہ میت ایمبولینس میں گھر لے جاسکتے۔ جانے کس کس سے ادھار قرض لے کر 5 ہزار روپے ایمبولینس کا کرایہ دے کر میت گھر لائی گئی۔ ہے کوئی جو اس خونِ ناحق کا حساب دے!

کورونا کی وبا ہر انسان کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہی ہے مگر ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کرنا اور ساری توجہ کورونا کے مریضوں پر مبذول کرنا بھی ایک خطرنک عمل ہے۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ کورونا کے علاوہ بھی بہت سے ایسے دیگر امراض ہیں جن میں مریضوں کو فوری طبّی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً حاملہ خواتین کے لیے تو ان حالات میں دوہرا خطرہ ہوتا ہے اور انہیں زیادہ احتیاط اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔

یونیسیف کی تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی وبا کے اس بدترین وقت میں 2 کروڑ 90 لاکھ بچے جنوبی ایشیا میں اور صرف پاکستان میں 50 لاکھ بچے اگلے چند مہینوں میں جنم لیں گے، گویا ہمیں ان 50 لاکھ ماؤں کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے جو لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلوں سے جنم لیتے ایک افسردہ اور تناؤ والے ماحول میں ماں بن رہی ہیں۔

انہیں جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی علاج کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے اور پاکستان میں صحت کے شعبے کی کارکردگی کے پیش نظر بس دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ یونیسیف نے بھی حکومتوں اور ڈونرز اداروں سے اس ضمن میں امداد کی اپیل کی ہے۔

ڈاکٹر سیما رضا ایک نجی ہسپتال میں گائنالوجسٹ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’اس وبائی دور میں حاملہ خواتین کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ صرف جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی پریشان ہورہی ہیں۔ باقاعدگی سے روٹین کا طبّی معائنہ نہ ہونا، ڈاکٹرز سے دُوری، علاج کی بہتر سہولیات نہ ملنے اور گھروں میں محصور ہونے سے ان میں نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں اور شکم مادر میں موجود بچے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا میٹرنٹی ہوم میں ڈاکٹرز کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے اور ان خواتین کا باقاعدگی کے ساتھ طبّی معائنہ ہونا چاہیے۔ لاک ڈاؤن کی اس صورتحال میں گھر والوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انہیں گھر پر خوشگوار ماحول فراہم کریں‘۔

ایک اور ڈاکٹر نگہت سیما کے مطابق ’حاملہ خواتین اگر خدانخواستہ کورونا وائرس کا شکار ہوجائیں تو انہیں ڈرنے کے بجائے اپنے علاج پر توجہ دینی چاہیے اور یہ تسلی رکھیں کہ ان کا یہ مرض بچے تک منتقل نہیں ہوگا بشرطیکہ وہ پیدائش کے بعد بچے سے سماجی فاصلہ رکھیں‘۔

ایک بین الاقوامی میڈیکل جریدے دی لینسیٹ کی ایک تحقیق کے مطابق چین کے شہر ووہان میں جن 9 حاملہ خواتین میں کورونا وائرس کی معمولی سی علامات پائی گئی تھیں ان کے نوزائیدہ 8 بچوں میں وائرس کا ٹیسٹ منفی آیا جبکہ صرف ایک بچہ متاثر نکلا۔

مزید تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بچے کی پیدائش چاہے نارمل ہو یا بذریعہ سی سیکشن، پیدائش کے دوران یہ وائرس ماں سے بچے تک نہیں پہنچتا البتہ بعد میں ماں سے قربت کے نتیجے میں یہ بچے تک منتقل ہوسکتا ہے۔

امریکن سوسائٹی آف بائیولوجی کے جریدے کے مطابق یہ وائرس نوزائیدہ بچوں میں اس لیے منتقل نہیں ہوتا کیونکہ یہ انسانی خلیوں میں ایک مخصوص پروٹین ACE2 سے خود کو منسلک کر لیتا ہے۔ یہ پروٹین نوزائیدہ بچوں میں یا تو ہوتا نہیں ہے یا پھر اس کی شکل مختلف ہوتی ہے۔

اس کے باوجود بھی اس حوالے سے تمام ڈاکٹر متفق ہیں کہ حاملہ خواتین کا کوئی بھی مہینہ چل رہا ہو انہیں غیر ضروری طور پر ہسپتال آنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے اور فون پر مشاورت اور دواؤں کے بارے میں معلومات لیتی رہیں۔ ضروری ٹیسٹ کی رپورٹس بھی ڈاکٹر واٹس ایپ پر دیکھ کر مشورہ دے سکتی ہیں۔ بہت سے ڈاکٹروں نے ٹیلی میڈیسن یا آن لائن مشاورت کی سہولیات شروع کردی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین ہسپتال صرف اس وقت آئیں جب ڈیلیوری کا وقت آجائے۔

کورونا وائرس کی اس پھیلتی ہوئی وبا کے پیشِ نظر شہروں میں بھی یہ رجحان دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر کے طور پر گھروں پر ڈیلیوری کروانے پر غور کررہے ہیں۔ ڈاکٹر سیما رضا نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کیا اور ہر حال میں ہسپتال میں ڈیلیوری کروانے کی ہدایت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ڈیلیوری سے قبل یا اس کے دوران کسی بھی قسم کی غیر متوقع پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں، جنہیں گھر میں حل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین ڈیلیوری کے لیے ہسپتال آئیں تو ماسک ضرور پہنیں بلکہ ڈیلیوری کے دوران بھی ماسک پہنے رہیں چاہے وہ کورونا کی مریض ہوں یا نہ ہوں‘۔

دراصل حاملہ خواتین کا مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ پھیپھڑوں کے کچھ امراض بھی نومولود بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، مگر اس وقت دستیاب ڈیٹا کے مطابق یہ رجحان فی الحال کورونا وائرس میں دیکھنے میں نہیں آیا۔

ڈاکٹر طاہرہ ایک Lactation consultant ہیں، ان کا نئی ماؤں کو مشورہ ہے کہ آپ احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے بچے کو دودھ پلاسکتی ہیں۔ دودھ پلانے سے پہلے اپنے جسم کو اچھی طرح سے صاف کرلیں، اور اگر کورونا کے حوالے سے کوئی علامات ظاہر ہونے لگیں تو ماسک پہن لیجیے ورنہ اس کی بھی ضرورت نہیں۔

ہم تاریخ کے ایک اہم ترین دور سے گزر رہے ہیں، ہمارا دانشمندانہ رویہ ہی ہمیں تاریخ میں زندہ رکھے گا لیکن اگر ہم نے اپنی روایتی لاپرواہی، بددیانتی اور بدعقلی کی روش جاری رکھی تو یقین جانیے کہ ہماری جگہ کہیں تاریخ کے کوڑے دان میں ہوگی۔

مشہور صحافی، مصنف اور شاعر محمود شام نے بھی اس مرض کی کیا خوب ترجمانی کی ہے

عجب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی

بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

کل جب عالمی سطح پر ماؤں کا عالمی دن منایا گیا تو کیا کسی نے کبھی سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ماں بچوں کو خود سے لپٹانے اور ان کا ماتھا چومنے سے گریز کرے گی۔ اسے اپنا نہیں بچوں کی صحت اور زندگی کا خیال بچوں کو خود سے دُور رکھنے پر مجبور کرے گا۔ کیا ان ماؤں کی بے بسی کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے!

ان مختلف حالات میں ماں کے دن کو منانے کا انداز بھی مختلف ہونا چاہیے۔ اس سال اپنی ماں کے ساتھ اردگرد موجود ہر ماں کا خیال رکھیے خصوصاً وہ جو پہلی بار اس تجربے سے گزر رہی ہیں۔

ہسپانوی مصنف گبریل گریشیا نے اپنا شہرہ آفاق ناول 'وبا کے دنوں میں محبت' (Love in the Time of Cholera) لکھ کر نوبل انعام حاصل کیا تھا۔ ہم اگر ناول نہ بھی لکھ سکیں تب بھی شاید وبا کے ان دنوں میں ماؤں سے محبت کی کچھ انوکھی داستانیں رقم کرجائیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

akhtar Hafeez May 11, 2020 07:30pm
ناول Love in the Time of Cholera گارشیا کے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے مگر انہیں جو نوبل انعام ملا وہ One Hundred years of Solitude (تنہائی کے سو سال ) پر پر ملا تھا۔