تیسرا ایشز ٹیسٹ: آسٹریلیا کو سیریز بچانے کا چیلنج درپیش

مانچسٹر: آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان تیسرے ایشز ٹیسٹ کا آغاز کل سے اولڈ ٹریفورڈ میں ہو رہا ہے جہاں پانچ میچوں کی سیریز میں دو صفر کے خسارے سے دوچار مہمان ٹیم کو سیریز بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔
یاد رہے کہ ٹرینٹ برج میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 14 رنز سے فتح حاصل کی تھی جبکہ لارڈز کے تاریخی میدان پر ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں بھی میزبان نے حریف کو بھاری مارجن سے شکست دی تھی۔
اولڈ ٹریفورڈ گراؤنڈ سے آسٹریلین ٹیم کی خاصی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں جس میں 1956 میں جم لیکر کی جانب سے ایک ٹیسٹ میں ریکارڈ 19 وکٹیں لینے اور 1993 میں شین وارن کی جانب سے کرائی گئی صدی کی بہترین گیند سرفہرست ہے اور اس بار سابقہ ورلڈ چیمپیئن کو سیریز بچانے کیلیے کچھ اسی قسم کی کارکردگی درکار ہے۔
گزشتہ میچز سمیت لگاتار چھ ٹیسٹ میچوں میں ناکامی اور بیٹنگ لائن کی ناقص کارکردگی کے باعث ماہرین کرکٹ میں سے اکثر اس بات پر متفق ہیں کہ مہمان ٹیم کا سیریز میں واپس آنا یقیناً بہت مشکل ہے۔
تاہم آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے کپتان مائیکل کلارک اس بات سے متفق نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میرا سچے دل سے ماننا ہے کہ ہم سیریز جیت سکتے ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ میرے اس بیان پر بہت سے لوگ ہنسیں گے۔
بدھ کو ایک بیان میں کلارک نے کہا کہ یقینی طور پر ایسا ہو سکتا ہے کہ کیونکہ اگر مجھے محسوس ہوتا کہ یہ ٹیم جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو میں یہاں نہ ہوتا۔
حقیقتاً کلارک کا یہ بیان خاصا مضحکہ خیز محسوس ہوتا ہے کیونکہ آسٹریلیا نے آخری بار 1936-37 میں دو صفر کے خسارے سے دوچار ہونے کے بعد سیریز 3-2 سے اپنے نام کی تھی لیکن اس ٹیم کے اس کارنامے کا سہرا کرکٹ کی تاریخ کے شہنشاہ ڈان بریڈ مین کے سر تھا اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں موجودہ آسٹریلین میں کوئی بھی کھلاڑی ان کی دھول تک کو نہیں پہنچ سکتا۔
اس بات کا اندازہ مہمان بیٹنگ لائن کی گزشتہ دونوں میچز میں کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے جہاں کوئی بھی مستند بلے باز سنچری تو درکنا ایک اننگ میں بھی 81 رنز سے زائد نہ بنا سکا اور اس دوران کسی ایک اننگ میں آسٹریلین بلے باز کا زیادہ سے زیادہ اسکور 98 رنز تھا جو پہلے ٹیسٹ میں ڈیبیو کرنے والے ایشٹن ایگار نے گیارہویں نمبر پر کھیلتے ہوئے بنایا تھا۔
اگر آسٹریلیا کو سیریز بچانی ہے تو اس کے بلے بازوں کو اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جبکہ بیٹنگ کے اسی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے آسیز نے اوپنر ڈیوڈ وارنر کو بھی طلب کر لیا ہے جنہیں انگلش ٹیم کے بلے باز جو روٹ کو چیمپیئنز ٹرافی کے دوران بار میں گھونسا مارنے پر ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

ڈیوڈ وارنر کو انجرڈ اسٹیون اسمتھ کی جگہ ٹیم میں شامل کیے جانے کا امکان ہے تاہم آسٹریلیا کیلیے صرف بیٹنگ لائن ہی مسئلہ نہیں بلکہ دوسرے ٹیسٹ میں انجری کے باعث سیریز سے باہر ہونے والے نوجوان اسپیڈ اسٹار جیمز پیٹنسن کی عدم موجودگی بھی لمحہ فکریہ ہے اور اسے ان کے موزوں متبادل کی تلاش ہے۔
پیٹنسن کی جگہ لینے کیلیے جیکسن برڈ اور مچل اسٹارک میں مقابلہ ہے جبکہ ٹیم میں ایک اور تبدیلی بھی متوقع ہے جہاں اسپنر ایشٹن ایگار کی جگہ ناتھن لیون کو کھلائے جانے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والی دونوں ایشز ٹیسٹ سیریز میں بھی انگلینڈ نے ہی کامیابی حاصل کی تھی اور اگر وہ یہ ٹیسٹ میچ بھی اپنے نام کر لیتی ہے تو وہ 1981 کے بعد لگاتار تین ایشز سیریز جیتنے والی پہلی ٹیم ہو گی۔
انگلینڈ کی ٹیم کو سیریز کیلیے شروع سے ہی فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا لیکن ابتدائی دونوں میچز میں فتح کے بعد ماہرین کرکٹ نے سیریز میں وائٹ واش کی بھی پیش گوئی کر دی ہے تاہم انگلش ٹیم کے کپتان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہ صرف مذکورہ ٹیسٹ کی جانب مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔
ایلسٹر کک نے وائٹ واش کی پیشگوئی کو اپنی ٹیم کیلیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے سوچنا انتہائی خطرناک ہے، ہم اسی وقت ایک اچھی ٹیم ہیں جب ہم ایک ہی چیز پر اپنی توجہ رکھیں، ہم اس وقت پچھلی اگلی چیزوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتے، اس وقت ہماری تمام تر توجہ اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ پر مرکوز ہے۔
ہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم نے گزشتہ سات میچوں میں سے چھ میں کامیابی حاصل کی ہے اور ان کیلیے ایک اور خوشخبری انجری کا شکار کیون پیٹرسن کی صحتیابی ہے جو ممکنہ طور پر آج سے ہونے والے ٹیسٹ کی فائنل الیون میں شامل ہوں گے۔
انگلش ٹیم میں اسپنر گریم سوان کا ساتھ دینے کیلیے بائیں ہاتھ کے اسپنر مونٹی پنیسر کو بھی شامل کیے جانے کا امکان ہے تاہم فائنل الیون میں شمولیت کیلیے ان کا 15 ماہ کے بعد انگلش اسکواڈ کا حصہ بننے والے کرس ٹریملٹ کے ساتھ سخت مقابلہ ہے۔
یہ گراؤنڈ گریم سوان کیلیے انتہائی کامیابیوں کا ضامن ثابت ہوا ہے جہاں انہوں نے تین ٹیسٹ میچز میں 16 کی ایوریج سے 25 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
مجموعی طور پر انگلش ٹیم آسٹریلیا پر تمام شعبوں میں حاوی دکھائی دیتی ہے لیکن اولڈ ٹریفورڈ میں مہمان ٹیم کی حکمت عملی اور ٹیم میں تبدیلی فتوحات کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔











لائیو ٹی وی