کورونا کے بعد معیشت کے آغاز کیلئے بجٹ میں کچھ نہیں، تاجر رہنما

اپ ڈیٹ 12 جون 2020
لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدیداروں نے کاروباری برادری کو ریلیف ناکافی قرار دیا—فوٹو:ڈان نیوز
لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدیداروں نے کاروباری برادری کو ریلیف ناکافی قرار دیا—فوٹو:ڈان نیوز

تاجر رہنما میاں زاہد حسین نے وفاقی حکومت کے بجٹ کو 'اسٹیٹس کو' کا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کے بعد معیشت کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوئی اقدام موجود نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کی جانب سے اپنا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنے پر اپنے ردعمل میں سابق چیئرمین کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) میاں زاہد حسین نے کہا کہ یہ ایک اسٹیٹس کو بجٹ ہے اس میں کوئی خاص سمت نہیں ہے، کورونا کے بعد معیشت کی شروعات کے لیے بجٹ میں کوئی چیز شامل نہیں ہے۔

نجی ٹی وی جیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا زیرو ریٹنگ کا مطالبہ تھا اس پر کوئی بات نظر نہیں آئی جس کو ہمیں کرنا تھا، گورننس میں بھی کوئی خاص اقدام نظر نہیں آیا۔

مزید پڑھیں:70 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان

میاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ریونیو کے شعبے، خاص کر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں خاصے اقدامات بتائے گئے ہیں جو بظاہر کاروباری برادری کے لیے اچھی نہیں ہیں لیکن جب تفصیلات آئیں گی تو دیکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ محسوس ہوتا ہے کاروباری برادری کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ آڈٹ کو ایک دوسال کے لیے مؤخر کیا جائے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس کو انہوں نے مزید سخت کردیا ہے۔

سابق چیئرمین کاٹی کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے مجموعی طور پر کاروباری سرگرمیوں میں شاید مشکلات میں مزید اضافہ ہو۔

لاہور چیمبر آف کامرس کا ردعمل

لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر عرفان اقبال شیخ کا کہنا تھا کہ ان حالات میں اچھا بجٹ پیش کرنا بہت مشکل کام تھا لیکن ہم نے جو ریلیف مانگا تھا وہ اس طرح نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کورونا وائرس کے پیش نظر صحت سے متعلق اشیا پر ریلیف دیا جو اچھی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیا اور قرضوں پر سود 5 اب ادا کیا ہے جو اچھی بات ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت پر دباؤ ہوتا ہے۔

لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدیداروں نے کہا کہ حکومت نے ایف بی آر کا جو ہدف رکھا ہے وہ زیادہ ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ مشکلات ہوں گی اور ایف بی آر لوگوں کو تنگ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ تعمیرات میں جس طرح سے سرمایہ کاری کے لیے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے بجٹ میں ایسا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے تھے حکومت سی پیک پر کچھ ریلیف دے گی لیکن ہمیں کچھ نظر نہیں آیا اسی طرح شرح سود کم کرنا حکومت کے اپنے مفاد میں ہے اور ہمارا خیال تھا مزید کم ہوگا۔

حکومت کو چینلجز کا سامنا ہے، نائب صدر ایف پی سی سی آئی

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے نائب صدر ڈاکٹر محمد ارشاد نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت کو معیشت سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اس لیے کورونا وائرس کی صورت حال میں حکومت کو بجٹ میں کوئی بڑا ریلیف دینا ممکن نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: مالی سال 19-2018: سست معیشت، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں بھی کمی کا باعث

ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت قومی معیشت کی بہتری کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں سیمنٹ کی قیمتوں میں کمی کردی ہے جو تعمیراتی صنعت میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے اور اس سے مزید 40 سے زیادہ صنعتیں وابستہ ہیں اور سیمنٹ کی قیمتوں میں کمی سے بھی ان پر اثر پڑے گا۔

محمد ارشاد نے کہا کہ کورونا وائرس نے ملک کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور حکومت کے لیے اس خلا کو پر کرکے وسائل اور مسائل میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہے۔

قبل ازیں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے۔

حماد اظہر نے بتایا تھا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل میں ایوان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ حکومت سے ورثے میں ہمیں کیا ملا، جب 2018 میں ہماری حکومت جب آئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا، اس وقت ملکی قرض 5 سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔

بجٹ 21-2020 کے اہم نکات:

دفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویز

ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویز

نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویز

این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ہے

اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے

مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے تجویز

وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز

سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویز

پنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز

صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز

دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویز

آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویز

نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

تبصرے (0) بند ہیں