sindh-out-from-power-game 670
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نواز شریف نے یہ تاثر دیا کہ وہ سندھ اور پنجاب کا سیاسی اتحاد جو بھٹو نے قائم کیا تھا وہ زندہ کرنے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں سے بھی پینگیں بڑھائیں۔ تو قوم پرست انہیں سندھ کا ہمدرد قرار دینے لگے تھے۔ —. فائل فوٹو وہائٹ اسٹار

صدارتی انتخاب نے سندھ کی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ سیاسی طور پر تنہائی اور شدید دباؤ کا شکار ایم کیو ایم نواز لیگ سے قربت لے کر سیاسی دھارے میں آگئی ہے مگر نواز لیگ سندھ میں سیاسی تنہائی کا شکارہو گئی۔ ایک بار پھر مہاجر اور پنجاب کا روایتی اتحاد قائم ہوگیا ہے۔ اس نئی قربت سے سندھ میں سیاست کوکئی عشرے پیچھے دھکیل دیا ہے۔

اگرچہ پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کے بعد نواز لیگ کے امیدوار ممنون حسین کی کامیابی میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔مگر پھر بھی نواز لیگ کے رہنما ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائین زیرو پہنچے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں ان کا موقف یکسر بدل گیا۔ میاں نواز شریف کے وہ دعوے اوریقین دہانیاں دھری کے دھری رہ گئیں۔ انہوں نے متحدہ سے سیاسی مخالفت کا آغاز لندن کانفرنس سے شروع ہوا تھا، جہاں ان کی دعوت پر جمع ہونے والی پارٹیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اب کوئی بھی پارٹی ایم کیوایم کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ یہ توکوئی ایک عشرہ پہلے کی بات تھی۔ انتخابات کے موقعہ پرمیاں صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی ایم کیو ایم کی وجہ سے آئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کریں گے۔ لیکن اب نواز لیگ کے مرکزی رہنما کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو اکموڈیٹ کرنا اور سیاسی دھارے میں لانا ضروری ہے۔ سندھ کے کارکن اور رہنما ؤں کو شدید اعتراضات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم عوام میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

سندھ میں نواز لیگ کے ناراض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ سندھ میں کسی سے اتحاد کامعاملہ تھا لہٰذا ان کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہئے تھا۔ مگر ان سے تو مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنماؤں غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی، اسماعیل راہو یا کراچی سے تعلق رکنے والے شفیع محمد جاموٹ اور عبدالحکیم بلوچ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ یوں نواز شریف نے اپنی پرپارٹی کے سندھ کے رہنماؤں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ حکیم بلوچ اور شفیع محمد جاموٹ جو کہ پیپلز پارٹی کی ایم کیو ایم کے بارے میں پالیسی سے تنگ آکر نواز لیگ میں شامل ہوئے تھے، انہیں بھی بڑی دقّت کا سامنا ہے۔

پرانے مسلم لیگی غوث علی شاہ صدارت کے مضبوط امیدوار ہو سکتے تھے۔ وہ مشرف کا پورا دور خود ساختہ جلاوطنی میں رہے۔ مبصرین کا خیال تھا کہ نواز شریف حکومت کے بعد صدارت کا عہدہ سندھ کے حصے میں آئے گا تو شاہ صاحب کو یہ عہدہ دیا جائے گا۔ یہی صورتحال ممتاز بھٹو کی تھی جنہوں نے سالہا سال کی قوم پرست سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو نواز لیگ میں ضم کیا تھا۔ سیاسی حلقوں میں یہ باتیں کی جارہی تھیں کہ انہیں صدارت کا عہدہ دیا جائے گا۔ مگر ان دونوں رہنماؤں کو نظرانداز کیا گیا۔ بعد میں سندھ کے گورنر شپ کے عہدے کا آسرا دیا گیا۔ مگر اب خیال کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم سے نواز لیگ کی دوستی کے بعد یہ عہدہ بھی انہیں نہیں مل سکے گا۔ سندھ کے حصے میں صدارت کا عہدہ تو نہیں آیا مگر گورنری بھی مسلم لیگ کی سندھی قیادت کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ نواز شریف کو صدر کے عہدے کے لیے کسی ’’وفادار‘‘ کی تلاش تھی۔ انہیں سندھ کے پرانے باشندوں پر یقین نہیں آیا۔

نواز لیگ نے ایم کیو ایم سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے پہلے اپنی اتحادی جماعت فنکشنل لیگ سے بھی نہیں پوچھا۔ خبروں کے مطابق اسی بناء پر پیر پگارا کے نواز لیگ کے رہنماؤں سے ملنے سے انکار کردیا۔ لیکن معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر پگارا ایم کیو ایم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے آگاہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیر پگارا کو سندھ میں آئندہ تبدیلی کے حوالے سے ایک اہم ٹاسک بھی دیا جا رہا ہے۔

سندھ کے قوم پرست اور عام لوگ بھی اس قربت پرناخوش ہیں۔ کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کی وجہ ایم کیو ایم ہی تھی۔ تب نواز لیگ کو پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر کو پیش کیا جا رہا تھا۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نواز شریف نے یہ تاثر دیا کہ وہ سندھ اور پنجاب کا سیاسی اتحاد جو بھٹو نے قائم کیا تھا وہ زندہ کرنے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں سے بھی پینگیں بڑھائیں۔ تو قوم پرست انہیں سندھ کا ہمدرد قرار دینے لگے۔ یہاں تک کہ سندھی ادیبوں کا بھی ایک بریگیڈ سامنے میں آگیا جس نے پیپلز پارٹی کے خلاف اور نواز شریف کے حق میں ایک ہائیپ پیدا کردی تھی۔

نواز شریف نے قوم پرستوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ انہیں آسرا دیا کہ وہ اگر سندھ سے پیپلز پارٹی کے پاؤں نکالنے میں مدد کریں گے تو ان کو اقتدار میں شامل کیا جائے گا۔ سندھ کی قوم پرست سیاست جو وفاق پرست اور پارلیمانی سیاست سے دور کھڑی تھی۔ ایک مرتبہ اس کے قریب آگئی۔ قوم پرستوں کو الیکشن میں تو کچھ نہیں ملا مگر ان کے اتحادی نواز شریف کے حالیہ اقدام سے ان کی رہی سہی سیاست بھی خطرے میں پڑ گئی۔

اس پورے قصے میں نواز شریف کو فائدہ پہنچا مگر قوم پرست گھاٹے میں رہے۔ وہ سندھ میں ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکے۔ ابھی وہ اپنی حکمت عملی کی ناکامی کے زخم چاٹ رہے تھے کہ نواز لیگ نے ایم کیو ایم سے قربت کرلی۔ جس کے بعدیہ قوم پرستوں کے لیے دوسرا بڑا جھٹکا تھا۔ جلال محمود شاہ اس کو نواز لیگ کی سب سے بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف اس اقدام سے سندھ میں حمایت اور ہمدردی کھو بیٹھیں گے۔ عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ سندھیوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

سندھ میں نواز لیگ چند افراد پر مشتمل ہے۔ اس کابطور پارٹی وجود نہیں تھی۔ یہ ان کی حکمت عملی تھی کہ وہ سندھ میں پارٹی منظم نہ کریں کیونکہ وہ سندھ میں براہ راست اسٹیک ہولڈر بننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو پارٹی کی پالیسیاں بھی ایسی بنانی پڑتی جو سندھ کے مفادات سے مطابقت رکھتیں۔ نواز شریف گزشتہ تین سال کے دوران پارٹی کی تنظیم سازی کے بجائے اتحادی تلاش کیے جو پیپلز پارٹی کے خلاف ماحول بنا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ الیکٹ ایبل ڈھونڈتے رہے جو حکومت سازی میں ان کو ووٹ دے سکیں۔

نواز لیگ کے اس اقدام پرسندھ میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ نئی قربت میں ایم کیو ایم کو ہوگا۔ ویسے بھی ایم کیو ایم ہمیشہ پی پی کے بجائے نواز لیگ کے ساتھ اتحاد میں سہولت محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ سندھ میں اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے اس کا مکمل طور پر انحصار ایم کیو ایم پر ہوگا۔ نواز لیگ کو صدارتی امیدوار کے لیے سندھ سے ووٹ ملے، لیکن یہ ووٹ ایم کیوایم کے تھے۔ جبکہ سندھ کی ایک بڑی آبادی کی صدر کو حمایت حاصل نہیں۔

غالب امکان ہے کہ نواز لیگ گورنرکا عہدہ ایم کیو ایم کو ہی دے گی۔ ایسا کرکے وہ پیپلز پارٹی پر چیک رکھ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دو پارٹیوں کا اتحاد سندھ میں آئندہ سیاسی تبدیلی کے لیے بھی کام آسکتا ہے۔ جس کو سیاسی حلقے نواز لیگ کی مستقبل کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ اب سندھ کے پاس وفاق میں کوئی آئینی عہدہ نہیں رہا۔ یوں صدر کا عہدہ اب چاہے غیر اہم ہی صحیح مگر اس کے انتخاب نے سندھ کو پاور گیم سے آؤٹ کردیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (13) بند ہیں

sattar rind Aug 01, 2013 11:28am
nwasz lost another opportunity to get footage in Sindh politics.
Ashraf Nahyoon Aug 01, 2013 12:23pm
سیاست تو ویسے بھی شطرنج کی بساط ھوتی ھے اور ھمارے یھاں کی سیاست میں جھوٹ، منافقت، وعدہ خلافی اور ذاتی مفاد پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ھے. آپ کسی بھی سیاستدان پر بھروسہ نھیں کرسکتے. کھاں کے اصول کہاں کی اخلاقیات..... رھا سندھ کے ان 'قوم پرستوں' کا سوال جو اپنی پارٹی وغیرہ مسلم لیگ ن میں ضم کرکے اپنی کشتیاں تو جلاچکے.. انھوں نے یہ جو کچھ بھی کیا تھا سندھی قوم کے درد میں بے حال ھوکر نھیں 'کچھ اور' سوچ کر کیا تھا....مگر ان کے سامنے پنج دریا کی سرزمیں کے بارھا اقتدار میں رھنے والے شاطر 'کھلاڑی' ھیں جن کی 'متعین' ترجیحات ھیں اور وہ کھیل کھیل گئے.
Dr:A.Qadeer Memon Aug 01, 2013 12:50pm
يهي قوم پرست پهلي پنجاب کي بالادستي کي بات ڪرتي تهي اب ان ڪو يه پنجاب ڪيسي پيار هوگيا تها يه تو علم ان ڪو ئي هوگا ، جن ڪو پ پ پ ڪا ڪڻر دشمن بنايا تها يه دراصل نواز ڪي بهي سياست نهين ، بلڪه نواز ڪو لاني والي طاقتون ( ايجنسيون ) ڪا ڊراما لڪا چهپا تو نهين هي نواز ڪو 1997 اور اب 2013 مين اتني داندهلي ڪي ذريعي جيتوانا ڪوئي انسانيت هي ؟ يه ڪوئي اخلاقي طريقي ڪي اليڪشن تهي؟ يه تو ايڪ ڊرامه تها جو پاڪستان مين هي هوتا هي . يهي قومپرست ان ايجنسيون ڪي زرخريد غلام هين جن ڪا نواز شريف وقتي طور دکهاوي ڪي ليي ” ابا“ بنا هوا هي . مقصد يه ڪه قومپرستون سي ڻرين چهوٽ گئي اور نواز سي ٽرين ليٽ هوگئي
khalil chandio Aug 01, 2013 01:01pm
بلکل مناسب تجزیہ ھے خاص طور پہ سندہ میں مسلم لیگ کی تنظیم سازی والا معاملہ
وہاب عباسی Aug 01, 2013 01:06pm
نواز شریف کی حکمت عملی تھی کہ وہ سندھ میں پارٹی منظم نہ کریں کیونکہ وہ سندھ میں براہ راست اسٹیک ہولڈر بننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو پارٹی کی پالیسیاں بھی ایسی بنانی پڑتی جو سندھ کے مفادات سے مطابقت رکھتیں۔ نواز شریف گزشتہ تین سال کے دوران پارٹی کی تنظیم سازی کے بجائے اتحادی تلاش کیے جو پیپلز پارٹی کے خلاف ماحول بنا سکیں۔ ایم کیو ایم کو ہوگا۔ ویسے بھی ایم کیو ایم ہمیشہ پی پی کے بجائے نواز لیگ کے ساتھ اتحاد میں سہولت محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ سندھ میں اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے اس کا مکمل طور پر انحصار ایم کیو ایم پر ہوگا۔ ایم کیو ایم کو ہوگا۔ ویسے بھی ایم کیو ایم ہمیشہ پی پی کے بجائے نواز لیگ کے ساتھ اتحاد میں سہولت محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ سندھ میں اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے اس کا مکمل طور پر انحصار ایم کیو ایم پر ہوگا۔ اب وہ قوم پرست جو اس کو سندھ کا نجات دہندہ سمجھتے تھے خوش ہوں. ان کو آگرہ میں جنم لینے والا صدر قبول ہے مگر نواب شاہ کا صدر ہضم ہو کے نہیں دے رہا تھا
مختیار لاشاری Aug 01, 2013 03:32pm
عام انتخابات ۲۰۱۳ کی جیت سے ملک کے پسے ہوئے طبقے اور کافی لوگوں نے مسلم لیگ ن سے امیدیں وابستہ کرلیں جن پر بجیٹ ۲۰۱۳ نے پانی پھیر لیا ، اسی طرح سندھ کے لیگی اور قومپرستوں کے ارمانوں اور امیدوں کو صدارتی الیکشن ۲۰۱۳ نے مثل دیا جس میں امیدوار اور اتحادیوں کچھ دوسرے لوگ بن گئے ، عام تاثر یہ تھا کہ صدارتی امیدوار ہمارے غوث علی شاھ صاحب ہونگے اور گورنر ممتاز بھٹو ہوں گے ، مگر یہ حضرات ن لیگ کے ایک حصے کو شاید پسند نہیں، سندھ میں ن لیگ کے دو حصے ہیں ایک حصہ کراچی والوں پر مشتمل ہے دوسرا سندھ کے دیہی علاقوں پر مشتمل یا اس طرح کہہ لیں ممنون و غوث علی شاھ گروپ ، جو ممنون گروپ ہے اس پر میاں شہباز شریف کا دست سفقت ہے جب کہ بڑے میاں غوث علی شاہ صاحب والوں کی قدر کرتا ہے ، مگر چھوٹے میاں ضد کر لیں تو وہی ہوتا ہے ، چھوٹے میاں کچھ عرصہ پہلے لندن بھی گئے تھے جہاں ان کی ملاقات شہری جماعت کے کچھ ارکان سے بھی ہوئی تھی اس کے بعد شہری لوگ سندھ حکومت میں شمولیت سے کترانے لگے ، پ پ پ نے بھی پرانی یاری کی دہائیاں دیں مگر یاروں نے ریفرنڈم کرایا جس کی رزلٹ سامنے نہیں آئی کیونکہ اس وقت لندن میں کچھ معاملات نے تیزی پکڑلی ان معاملات کو حل کرنے کے لیے شہری حکومت کو کسی بھی قیمت پر وفاقی ہمدردی اور حصیداری چاہیئے تھی جو ن لیگ اسحاق ڈار ، پرویز رشید اور ممنون صاحب پلیٹ میں رکھ کر لے آئے جو انہوں نے خوشی خوشی قبول کر لیا. اب اس ساری ڈولپمینٹ کے پیچھے کیا محرکات ہیں جس پر کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ان سارے معاملات کا ماسٹر مائینڈ شہباز شریف اور اس کے رتن ہیں جو ہمیشہ ایسی بات یا ان پراجیکٹ کی بات کرتے ہیں جو ہمیشہ سندھیوں کو نا پسند ہوتی ہے اسی طرح چھوٹے میاں بھی شاید سندھی قومپرستوں اور سندھی لیگیوں کو اتنا پسند نہیں کرتے ، اس لیے ن لیگ کو سندھ میں ایسا اتحادی چاہیئے تھا جو سندھ کے حق میں مطالبات بھی نہ کرے اور ان کی شمولیت سے وفاق میں ھم کہیں گے بھائی سندھ کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور اس زیادہ ہم نے سندھ میں اتحادی کی صورت میں پ پ پ کے لیے ایک قسم کی ٹیزنگ فورس بنالی ہے ، جس کے لیے سر سہیل سانگی کے مطابق سندھی لیگیوں کو اعتماد لینا کیا مگر ان کو اتحاد کرنے کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی ، یہ بات ان کے لیے باعث صدمہ بنی ، مگر ن لیگ کا یہ رجحان آگے چل کر ن لیگ کہ لیے نقصاندھ بنے گا، ن لیگ کی بھاری اکثریت ہی ہمیشہ ان کے لیے خطرہ بنی ہے ، سندھ کے لوگ سندھ کے معاملے پر بہت حساس ہیں اور جو بھی سیاسی تحریکیں چلیں ہوں سندھ کے لوگوں کا حصہ اس میں نمایاں ہوتا ہے چاہے آزادی کی تحریک ہو ، ایم آر ڈی کی تحریک ہو، آمروں کے خلاف تحریک ہو یا بینظیر بھٹو کا بشیر خان قریشی کہ ساتھ کالا باغ ڈیم کے خلاف پنجاب، سندھ بارڈر پر دھرنے میں بیٹھنا ثابت کرتا ہے کہ جب بھی سندھ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو سب سندھی ساتھ ہونگے ، سندھ کو پاور سے آئوٹ کرنا ن لیگ کے لیے ملک میں بہت سے مسائل کے ساتھ ایک اور مسئلے میں اضافہ ہوگا جو ن لیگ کے سیاسی طور پر کافی تکلیف دہ ہوگا. سر سہیل سانگی نے سارے سیاسی منظرنامے کی جو سندھ سے تعلق رکھتا ہے اس کی حقیقی عکاسی کی ہے.
soomroashique Aug 01, 2013 05:28pm
Nice analysis of current political situation of Sindh,looks like establishment is now directly asking Sindhi politicians to give up politics of the land of pure.
imran Aug 01, 2013 10:12pm
kya Mamnoon hussain or Governer ishrat tul ibbaad ko ap sindh ka beta or basi nahi samjhty ager nahi to phir yaqenan ap pakistan ko bhi apna watan nhi manty hongy or urdu speaking logon ko indian samjhty hongay... yehi to masla hai k Pakistan ban gaya mager hum aik qoam na ban saky afsooos afsoos afsooos ap py or ye report shaya kerny or karany walon pe....
ilyasansari Aug 02, 2013 05:33am
سندھ میں قوم پرستی کی سیاست ناکام ہو چکی ہے - قوم پرستوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی لیکن نواز شریف نے اسے سمجھ لیا اس لئے صدارتی الیکشن میں قوم پرستوں کو اہمیت نہیں دی
وہاب عباسی Aug 02, 2013 11:02am
مولانا صاحب ! قوم پرستوں کی حکمت عملی یا یوں کہیں کہ موجودہ قوم پرست قیادت ناکام ہوئی یے تو بات ایک حد تک صحیح ہو سکتی ہے. قوم پرستی یا قوم پرست سیاست قرارد ینا درست نہیں. سندھ کے لوگ اپنی فطرت میں قوم پرست ہیں. دراصل سندھ میں قوم پرستی نئی کروٹ لے رہی ہے جس میں ممکن ہے کہ موجودہ قیادت غیر متعلق ہو کر رہ جائے. نواز شریف نے سمجھا نہیں ہے بلکہ سندھ کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے. آپ سندھ کے اخبارات اٹھاکر دیکھیں.
ilyasansari Aug 05, 2013 04:42am
مجھے آپ کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ موجودہ قوم پرست قیادت بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اس سے بھی اتفاق ہے کہ سندھی فطری طور پر قوم پرست ہوتے ہیں - میں نے قوم پرستی سے انکار نہیں کیا بلکہ کہا تھا کہ قوم پرستی کے نام پر کی جانے والی سیاست ناکام ہو چکی ہے - دراصل سندھ میں مخلص قیادت کا فقدان ہے - قوم پرستی کے نام پر سب اپنے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں - فی الحال کیونکہ متبادل کوئی نہیں اس لئے سندھی مجبوراٰ پی پی پی کا ساتھ دیتے ہیں -
murad pandrani Aug 05, 2013 05:18pm
bahut he ahim tajzia kiya gaya hai aur is article mein bahut sy halkon ky laey sabq bhi maujood hai.. great sohail sahab.
soomroashique Sep 13, 2013 07:31am
As usual very nice and realistic analysis of prsent politics of Sindh,many hopefull sindhi followers of PML(N) are now cursing their leadership,keep it up Sangi sahib, to make make us aware of the political changes in Sindh.