جارج فلائیڈ کا اوندھا پڑا جسم، ہتھ کڑی میں بندھے ہاتھ، گورے سپاہی کے گھٹنے تلے دبی گردن، ‘میں سانس نہیں لے پارہا’ کی گُھٹی گُھٹی آوازیں، اور پھر بوجھ تلے چٹختی سانسوں کا ٹوٹ جانا، اس دل خراش منظر نے ہر حساس انسان کی طرح آپ کی بھی آنکھیں نم اور سینہ شق کردیا ہوگا۔

کینیڈا میں ایک فنکار جارج فلائیڈ سے ہکہتی کے لیے ان کی تصویر دیوار پر پینٹ کر رہا ہے— فوٹو: اے ایف پی
کینیڈا میں ایک فنکار جارج فلائیڈ سے ہکہتی کے لیے ان کی تصویر دیوار پر پینٹ کر رہا ہے— فوٹو: اے ایف پی

اگر آپ امریکا میں قیامت ڈھاتی اور دنیا میں تہلکہ مچاتی اس ویڈیو کو دیکھ کر یوں لرز گئے ہیں کہ اسے دوسری بار دیکھنے کی تاب نہیں، تو آپ ہرگز ہرگز ایلکس ہیلے کا ناول ‘روٹس’ مت پڑھیے گا، کیونکہ اسے پڑھتے ہوئے آپ بھی سفید گھٹنا اپنی گردن اور سینے پر یوں محسوس کریں گے کہ دم گھٹنے لگے گا۔

جارج فلائیڈ کے دردناک قتل کا منظر اپنے پیچھے اس سے بھی کہیں زیادہ مکروہ اور بھیانک مناظر کا ایک طویل سلسلہ رکھتا ہے، اور یہ مناظر ‘روٹس’ کے ہر صفحے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس ناول کی کہانی افریقی دیس گیمبیا کے ایک گاﺅں میں خوشگوار اور پُرسکون زندگی کا آغاز کرتے ‘کُنتا کِنتی’ سے شروع ہوتی ہے۔

لیکن کُنتا کِنتی کے درد میں آنکھیں لہو کرنے سے پہلے اسے کردار کی صورت امر کردینے والے ایلکس ہیلے کے کرب سے آشنا ہوجائیے۔

11 اگست 1921ء کی کسی ساعت امریکی سرزمین پر جنم لے کر 10فروری 1992ء کو دنیا چھوڑ جانے والے ایلکس ہیلے کو ان کی دادی تواتر سے کچھ کہانیاں سناتی رہیں، ننھے ایلکس کا دل بہلانے کے لیے نہیں، اس تک خاندان کی تاریخ پہنچانے کے لیے۔

اسے ‘کُنتا کِنتی’ کی کتھا سنائی گئی، امریکا کے اس سیاہ فام خاندان کا جدامجد۔ ننھے ایلکس کو دادی نے بتایا کہ کُنتا کو کس طرح گیمبیا میں واقع اس کے گاﺅں سے اغوا کرکے امریکا لایا گیا، جہاں وہ نیپلز کے ساحل پر بطور غلام اترا۔ کُنتا سے اس کا خاندان، وطن اور آزادی ہی نہیں چھینی گئی، اس کا مذہب بھی بزور بدل ڈالا گیا۔ وہ مسلمان سے مسیحی بنادیا گیا اور اس کا نام بدل کر ‘ٹوبی’ رکھ دیا گیا۔

جارج فلائیڈ کے دردناک قتل کا منظر اپنے پیچھے اس سے بھی کہیں زیادہ مکروہ اور بھیانک مناظر کا ایک طویل سلسلہ رکھتا ہے
جارج فلائیڈ کے دردناک قتل کا منظر اپنے پیچھے اس سے بھی کہیں زیادہ مکروہ اور بھیانک مناظر کا ایک طویل سلسلہ رکھتا ہے

یہ کہانی کُنتا نے اپنی بیٹی کو سنا کر وصیت کی تھی کہ اسے نسل درنسل منتقل کرتی رہنا۔ سو کوئی 2 صدیوں بعد سینہ بہ سینہ گزرتی یہ کہانی بعد کی نسلوں پر بیتے قصوں کے ساتھ مل کر ایلکس کی سماعت میں اتری۔

کُنتا کی کہانی ایلکس ہی کا اصل ورثہ تھی، جسے قلم کار بننا تھا۔ ہم ‘تخلیق کے کرب’ کا تذکرہ بہت کرتے اور سنتے ہیں، لیکن ایلکس ہیلے اس کرب سے واقعتاً گزرے اور پورے 12 سال کے تحقیقی اور تخلیقی سفر کے دوران ہر لمحہ گزرتے رہے۔ اپنے جَد کُنتا کی حکایت کے تعاقب میں انہوں نے امریکا میں اور ملک سے باہر طویل سفر کیے۔

اس کہانی میں آنے والے افریقی الفاظ کی کھوج لگائی اور حقائق کی تلاش میں شہر شہر پھرتے رہے۔ آخرکار گیمبیا کے اس گاﺅں جا پہنچے جو کُنتا کِنتی کا وطن تھا اور وہاں انہوں نے کُنتا اور اس کے خاندان کا سراغ ڈھونڈ نکالا۔

مقامی تاریخ دانوں نے، جو یادداشت کے سہارے تاریخ یاد رکھتے اور بیان کرتے ہیں، بتایا کہ کُنتا جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا تھا تاکہ ڈرم بناسکے، جس کے بعد وہ کسی کو دوبارہ نظر نہیں آیا۔ ایلکس نے برطانیہ میں قیام کرکے 1760ء کے عشرے کے دوران افریقہ میں برطانوی سپاہیوں کی سرگرمیوں کی بابت معلومات حاصل کیں۔ اس عرصے میں افریقیوں کو اغوا کرکے غلام بنانے اور ان کی خریدوفروخت سے متعلق دستاویزات نے کُنتا کی ‘لوک کہانی’ کو حقائق پر استوار کردیا۔ بالآخر وہ امریکا کی Spotsylvania کنٹری کی ایک دستاویز کی مدد سے ‘ٹوبی’ تک جاپہنچے جسے جان والر اور این نامی آقاﺅں کی جوڑی نے ڈاکٹر ولیم والر نام کے شخص کو بیچا تھا۔

اپنے تحقیقی سفر کے دوران ایلکس نے اغوا کرکے امریکا لائے جانے والے افریقیوں کو لانے والے بحری جہازوں کا ریکارڈ چھانا اور غلاموں کی تجارت، ان کے استعمال اور استحصال کے بارے میں حقائق جمع کیے۔

ایلکس کا کہنا ہے کہ کُنتا کی کہانی کا 12 سال پیچھا کرتے ہوئے انہوں نے لگ بھگ 5 لاکھ میل سفر کیا۔ یہ محض ایک سفر ہی نہیں تھا، واقعات کی چھان پھٹک، ان مقامات کی تلاش جہاں وہ وقوع پذیر ہوئے، اس سب کی تصدیق، مزید تصدیق، اور پھر دوبارہ تلاش۔ دقتوں اور مشقت سے پُر ایلکس کی زندگی کے یہ 12 برس ہمیں ایک ایسا شاندار اور شاہکار ناول دے گئے جو ادبی کاوش ہونے کے ساتھ ایک تاریخی کتاب بھی ہے، ایک بولتی اور سانس لیتی تاریخ۔ نہ جانے اپنی تلاش کے دوران ایلکس اپنے اجداد پر ڈھائے جانے والے مظالم، ان کے دکھ اور تکلیف اور سیاہ فاموں کی تذلیل کا احساس جھیل کر بار بار کس اذیت سے گزرے ہوں گے، اس کا تصور ہی کربناک ہے۔

‘روٹس’ کی کہانی کُنتا کِنتی کی خوش باش زندگی سے شروع ہوتی ہے، جس نے گیمبیا کے ایک گاﺅں Jufureh کے مسلمان گھرانے میں جنم لیا۔ مصنف نے گاﺅں کے لوگوں اور کُنتا کے قبیلے کے مہذب و شائستہ اطوار، ان کی منظم زندگی اور خوبصورت رسم و رواج کو تفصیل سے بیان کرکے اس سامراجی پروپیگنڈے کا منہ کالا کردیا ہے کہ افریقی غیر مہذب اور وحشی تھے۔

اس گاﺅں میں ایسے اغواکاروں کی آمد کے تذکرے ہوتے تھے جن کا رنگ سفید ہے اور ان سے ‘بھیگی ہوئی مرغی جیسی مہک آتی ہے’۔ محبت اور انسان دوست روایات کے گہوارے میں پل کر جوان ہونے والا کُنتا محض 17 سال کا تھا کہ اسے اغوا کرکے امریکا لے جایا گیا، جہاں اس کی زندگی غلامی کی ذلتیں جھیلتے گزری۔

گیمبیا کے ایک گاؤں Jufureh سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر کُنتا کنتا جزیرے کا ایک منظر— فوٹو: اے ایف پی
گیمبیا کے ایک گاؤں Jufureh سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر کُنتا کنتا جزیرے کا ایک منظر— فوٹو: اے ایف پی

ناول کی ابتدا میں کُنتا کی مگن اور پُرمسرت زندگی کا حال پڑھتے ہوئے قاری کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کُنتا اب اغوا ہوا جب اغوا ہوا، اور دل اس کے مستقبل کا سوچ کر افسردہ ہوجاتا ہے۔ اصل کہانی کُنتا کے اغوا کے بعد شروع ہوتی ہے۔ بحری جہاز پر اوپر نیچے ہر طرف بندھے ہوئے افریقی، برہنہ اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے، ان سے کیا جانے والا سلوک، ایسا برتاﺅ جو اب کسی جانور کے ساتھ بھی ہو تو دنیا چیخ اٹھے، ان مناظر کو پڑھتے ہوئے، گِھن، بے چینی اور تکلیف اعصاب کو شَل کیے رکھتی ہے۔

ناول میں افریقہ کے باسیوں کو غلام بنانے اور غلاموں کی خرید و فروخت کے کریہہ دھندے کی تصویر کشی کرنے کے ساتھ افریقہ سے جبراً لائے جانے والوں سے جانوروں کی طرح کام لے کر انہیں امریکا میں صنعت و حرفت، ذراعت اور کان کنی میں ایندھن بنا کر ترقی کا عروج حاصل کرنے کی پوری تاریخ بین السطور بیان کردی گئی ہے۔

سیاہ فام افراد سے وحشیانہ سلوک اور انہیں انسان کے بجائے جانور سمجھنے کے اس دور کے چلن کو صفحہ در صفحہ یوں پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ ان غلاموں کو دی جانے والی ہر اذیت میں خود کو شریک محسوس کرتا ہے۔

میں نے انوار فاطمہ صاحبہ کا ترجمہ پڑھا ہے
میں نے انوار فاطمہ صاحبہ کا ترجمہ پڑھا ہے

اکتوبر 1976ء میں شائع ہونے والے اس ‘فیملی ساگا’ نے دھوم مچادی۔ ایک طرف ادبی حلقوں اور ناقدین نے اسے زبردست پذیرائی بخشی تو دوسری طرف یہ ناول بیسٹ سیلر کتابوں کی صف میں شامل ہوا اور اس سال نومبر تک اس فہرست میں پہلے نمبر پر آگیا۔ اشاعت کے 7 ماہ کے اندر اندر ‘روٹس’ کی 15 لاکھ کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ اس ناول پر ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی منی سیریز بھی بنائی جاچکی ہیں۔

اس ناول کے 2 اردو ترجمے بھی دستیاب ہیں۔ ایک انوار فاطمہ جعفری کا ترجمہ ‘سلاسل’ کے عنوان سے ہے اور دوسرا عمران الحق چوہان کا ‘اساس’ کے نام سے۔

میں نے انوار فاطمہ صاحبہ کا ترجمہ پڑھا ہے۔ انہوں نے کمال مہارت سے ناول کو اردو میں ڈھالا ہے، یوں کہ ساری منظر کشی، تمام کیفیات اور احساسات اپنی خوبیوں کے ساتھ اردو میں منتقل ہوگئے ہیں۔ تاہم مترجم نے ہماری معاشرتی اقدار کا لحاظ کرتے ہوئے یا شاید اپنے نسوانی وقار کے پیش نظر بعض ایسے حصول کے ترجمے سے گریز کیا ہے جن میں سیاہ فام غلاموں کے جنسی استحصال اور ان کی بے بسی کی تصویریں دکھائی گئی تھیں۔

امریکا کی ترقی، سماج اور افریقی نژاد امریکیوں کو سمجھنے کے لیے اس ناول کا پڑھنا ضروری ہے، اور ہاں ایک، ایک سانس کے لیے منت کرتے جارج فلائیڈ کا المیہ جاننے کے لیے بھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Ahmed Ullah khan Jun 16, 2020 11:47am
Roots par aik silailay war American drama PTV par bhee dikhaya jaa chukaa hai.. Roots hee naam thaa...
سیدہ صائمہ عثمان Jun 16, 2020 12:21pm
بہترین قلم کار" محمد عثمان جامعی"