گزشتہ کئی مہینوں سے پوری دنیا کورونا وائرس کی گرفت میں ہے۔ اس وائرس نے اپنے خوفناک پنجے دنیا بھر میں گاڑے ہوئے ہیں اور اب تک لاکھوں افراد اس وائرس کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

یہ اسی وائرس کے منفی اثرات ہیں جس نے دنیا بھر میں ہونے والی تقریباً تمام ہی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے مقابلوں کو بھی منسوخ یا ملتوی کردیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے مختلف کھیلوں کی تنظیمیں مقابلوں کی بحالی کے لیے کوشاں تھیں اور یورپ کی مختلف فٹبال لیگوں کا ایک طویل تعطل کے بعد آغاز کھیلوں کی سرگرمیوں کی بحالی کی جانب ایک نمایاں قدم ہے۔

بالکل اسی طرح کرکٹ کے میدانوں کی روٹھی ہوئی رونقیں بحال کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں اور اس سلسلے میں ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے پر پہنچ چکی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے بعد پاکستانی ٹیم بھی ٹیسٹ اور ٹی20 سیریز کھیلنے کے لیے انگلینڈ کے دورے پر جانے کی تیاری کررہی ہے۔

یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اگر قومی ٹیم انگلینڈ کا دورہ کرتی ہے تو نہ صرف عوام کو خوشی میسر آئے گی بلکہ دونوں کرکٹ بورڈز کو بھی مالی فائدہ ملے گا، لیکن میری رائے میں موجودہ وقت کسی بھی طرح کی بحالی کے لیے کچھ زیادہ سازگار نہیں ہے اور کھلاڑیوں کی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈال کر یہ دورہ کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہوگی۔

یہ بات میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ اس دورے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے جس 29 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا تھا، ان میں سے 10 کھلاڑیوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے اور ان کھلاڑیوں میں وائرس کی موجودگی نے دورے سے پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا کوئی عام بیماری نہیں کہ اگر کوئی کھلاڑی دورے کے دوران بیمار ہوگیا تو اس کو وطن واپس بھیج دیا جائے۔ نہیں، ایسا ممکن نہیں کیونکہ اس بیماری کی تشخیص کے بعد تو مریض کو سفر کی اجازت نہیں ہوتی اور اس کو تنہائی میں رہنا پڑتا ہے۔ اب اگر دورے کے دوران کوئی کھلاڑی اس بیماری کا شکار ہوا تو دیارِ غیر میں اس کے لیے تنہائی میں رہنا خاصا دشوار اور کٹھن ہوسکتا ہے۔

ماضی میں کسی کھلاڑی کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد پورے ماحول میں جس طرح کا خوف و پُرسراریت پھیل جایا کرتی تھی، اس سے کئی زیادہ خوف کورونا پھیلا سکتا ہے کیونکہ اس بیماری کے باعث یکلخت ہی پورا ٹورنامنٹ یا سیریز منسوخ کرنی پڑسکتی ہے۔ اس کی مثال سربیا میں منعقد کیا جانے والا ایک نمائشی ٹینس ٹورنامنٹ ہے، جس کو اس وقت فوری طور پر منسوخ کردیا گیا جب دنیائے ٹینس کے صفِ اول کے کھلاڑی نوواک جوکووچ میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔

یورپ کے مختلف ممالک میں فٹبال کی سرگرمیاں بحال تو ہوگئی ہیں لیکن اگر بہت سارے کھلاڑیوں میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی تو ان فٹبال کے مقابلوں کو فوری طور پر روکنا پڑجائے گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکیٹو وسیم خان نے اپنے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ جن 10 کھلاڑیوں کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، ان میں بیماری کی کوئی علامات موجود نہیں تھیں۔ وسیم خان کے اس بیان کے مطابق یہ کھلاڑی ایسے لوگوں میں شامل تھے جن میں بیماری تو موجود تھی لیکن ان میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

یعنی اب اگر قومی ٹیم دورے پر جاتی ہے تو اس بات سے کیا کوئی انکار کرسکتا ہے یا کوئی گارنٹی لے سکتا ہے کہ دورے کے دوران ہمارے کھلاڑی کا سامنا asymptomatic افراد سے نہیں ہوگا؟ یعنی ان میں بیماری تو ہوگی مگر وہ بظاہر محسوس نہیں ہوگی، اور اگر ایسا ہوا تو یہ پوری ٹیم کو نادانستہ طور پر بیمار کرنے کا باعث نہیں بنے گا؟

پاکستان کرکٹ بورڈ اور انگلینڈ اور ویلس کرکٹ بورڈ کے مابین اس دورے کی جو شرائط طے ہوئی ہوں گی ان میں یقیناً پاکستان کو بھی کچھ پُرکشش فوائد دینے کی یقین دہانی کروائی گئی ہوں گی، اور یہ تمام وعدے اور فائدے اپنی جگہ بہت اچھے ہوں گے لیکن موجودہ حالات خاصے مشکل ہیں اور ان حالات میں کرکٹ بورڈ کو کسی بھی قسم کے فوائد کو کھلاڑیوں کی صحت اور زندگیوں پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔

اس لیے جان ہے تو جہاں ہے۔ اس مقولے پر عملد در آمد کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو فوری طور پر اس دورے سے معذرت کرلینی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں