لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

میں جب جنوری 1998ء میں مونٹریال کے گریجویٹ اسکول میں تھا تو ان دنوں کینیڈا کے متعدد صوبوں اور مشرقی حصے میں واقع امریکا کی چند ریاستوں سے شدید برفانی طوفان ٹکرایا تھا۔ سیکڑوں، ہزاروں افراد قریب ایک ہفتے تک بجلی سے محروم رہے۔ ان دنوں سردیاں عروج پر تھیں۔ ایک موقع پر تو کینیڈا کے صوبے کیوبک کی حکومت نے تمام شہروں کو خالی کروانے اور آبادی مغربی حصے میں منتقل کرنے پر غور شروع کردیا تھا۔

برفانی طوفان کے باعث پورا نظامِ زندگی رک گیا تھا۔ زیادہ تر مصنوعات اور خدمات کی سپلائی شدید متاثر ہوئی تھی جبکہ طلب یا یوں کہیں کہ چند چیزوں کی طلب اچانک سے بڑھ گئی تھی۔

فلیش لائٹوں اور موم بتیوں کی طلب میں زبردست اضافہ ہوگیا تھا۔ اسی طرح گروسری کی طلب بھی بڑھ گئی تھی۔ جن دکانداروں کے پاس موم بتیوں، بیٹریوں اور فلیش لائٹوں کا ذخیرہ موجود تھا، انہوں نے جب ان چیزوں کے دام بڑھائے تو میڈیا میں قیمتوں میں ناجائز اضافے اور ذخیرہ اندوزی کا شور مچ گیا اور ساتھ ہی ساتھ منافع خوری کے الزامات بھی لگائے گئے۔

حکومت نے اشیائے خور و نوش کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لیے فوری تحرک لیا لیکن چند مخصوص اقسام کی مصنوعات کی قلت دیگر کے مقابلے میں جلدی پیدا ہوگئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اشیاء کی طلب میں اچانک کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا کیا ان کی قیمتوں میں دکانداروں کی جانب سے اضافہ جائر تھا یا نہیں؟

پڑھیے: جب سب کچھ ٹھیک ہے پھر یہ مہنگائی کیوں ہے؟

پاکستان بھی کئی مواقع پر اسی طرح کے مسائل سے گزرا ہے۔ حال ہی میں ہم نے کورونا وائرس کے نتیجے میں قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوتے دیکھا ہے۔ جب بھی کوئی دوائی کورونا وائرس کے علاج میں مفید بتائی جاتی ہے تو اس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات تو وہ دکانوں سے ہی غائب ہوجاتی ہے۔ کم از کم سوشل میڈیا پر تو فوری ردِعمل سامنے آجاتا ہے جہاں لوگ ادویات بیچنے والوں کو ذخیرہ اندوز یا کالا دھندہ کرنے والے پکارتے ہیں اور انہیں اخلاقیات سے گِرا ہوا پیش کیا جاتا ہے۔

منڈیوں میں دام ایک اہم شماریے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی کی روشنی میں مختصی عمل سے متعلق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ منڈیاں طلب اور رسد کی بنیاد پر قیمتوں کا تعین کرتی ہیں۔ وہ افراد جو قیمت ادا کرسکتے ہیں وہ شے صرف انہیں ہی ملے گی اور جو ادا نہیں کرسکتے انہیں نہیں ملے گی۔

صرف منڈی یا قیمتوں پر مبنی مختصی عمل ہی یہ فیصلہ کرنے کا واحد طریقہ نہیں ہے کہ کوئی مخصوص چیز یا خدمت کس کس کی دسترس میں ہونی چاہیے۔ مختصی عمل سے متعلق فیصلوں کے لیے دیگر طریقے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ہم 'ایک فرد ایک ووٹ' کے نظام کے ذریعے نمائندگان چنتے ہیں۔ بس پر سواری یا ٹکٹ کی خریداری یا صحت عامہ کے نظام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قطاریں بناتے ہیں۔ ہمارے ہاں چند جگہوں پر اور چند مصنوعات کے لیے راشننگ کا نظام بھی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ہاں ملازمتوں کی مختصی اور مصنوعات اور خدمات تک رسائی کے لیے کوٹا نظام استعمال کیا جاتا ہے۔ چند مواقع پر ضرورت کی بنیاد پر کام کرنے والا نظام بھی اپنا لیا جاتا ہے۔

منڈیاں طلب و رسد اور قیمتوں کے ذریعے ایک اہم مختصی میکینزم تشکیل دیتی ہیں۔ چند مواقع (نیلامیوں) پر تو مارکیٹ نظام اس حد تک بھی پہنچ جاتا ہے کہ جہاں پراڈکٹ صرف انہی کے لیے مختص کردی جاتی ہیں جو اس کی سب سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

امتیازی قیمتوں کے نظام میں ہم گروہ یا انفرادی سطح پر ادائیگی کی رضامندی کے مطابق اصولوں کو مرتب دے سکتے ہیں۔ ان تفریقات سے قطع نظر بنیادی نکتہ یہ ہے کہ منڈیاں طلب، رسد اور قیمتوں کے ذریعے ان لوگوں کے لیے مصنوعات یا خدمات مختص کرتی ہیں جو مارکیٹ کلیئرنگ قیمت (یعنی طلب و رسد میں توازن کے لیے مقررہ کردہ رقم) ادا کرنے کے لیے راضی اور اس کے قابل ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: پیٹرولیم مصنوعات کا بحران اور مجموعی صورتحال پر ایک نظر

جب طلب یا فراہمی کو دھچکا پہنچتا ہے (یعنی طلب میں اضافہ اور فراہمی میں اچانک کمی ہونا) تو ایسے میں اگر مارکیٹ کلیئرنگ کی ضرورت ہو تو منڈی خود کو صرف قیمتوں میں اضافے کے ذریعے 'ایڈجسٹ' کرسکتی ہے۔ جب طلب اچانک سے بڑھ جائے یا رسد گھٹ جائے تب اگر قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے تو منڈی میں سپلائی شدہ اشیائے صرف کے مقابلے میں زیادہ صارفین پہنچ جائیں گے اور یوں اشیائے صرف کی قلت پیدا ہوجائے گی۔ اگر اضافی طلب کو ختم کرنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ ممکن نہ ہو تو پھر ہمیں ایک دوسرے مختصی میکینزم کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ وگرنہ قلت کالے دھندے کی راہ ہموار کردے گی۔

جب طلب یا رسد کو دھچکا پہنچتا ہے تو اس وقت کیا قیمتوں کی تبدیلی سے متعلق کسی قسم کی حدود مقرر ہوتی ہیں؟ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر اشیائے صرف کی مختصی کا فیصلہ داموں کی بنیاد پر کیا گیا ہے تو دھچکے کے سائز کے مطابق قیمتوں میں تبدیلیاں ہوں گی، اور ایسے مواقع پر حدود مقرر کرنا آسان نہیں ہوتا۔

یہی معاملہ ان چند منڈیوں کے ساتھ بھی ہے جہاں خریداروں اور بیچنے والوں کی تعداد کم ہے یا دونوں اطراف میں سے کسی ایک جگہ بھی ذخیرہ اندوز موجود ہیں تو معاملات میں ہیر پھیر ہوسکتی ہے اور اس کے باعث قیمت میں بھاری اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس مسئلے کا کوئی واضح حل موجود نہیں ہے۔

ویسے تو ریگولیٹری ادارے ذخیرہ اندوزوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی کارروائیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، لیکن پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ریگولیٹری صلاحیت کمزور ہوتی ہے، وہاں ایسا کوئی بھی کام بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوسکے گا۔

کیا ہم اشیائے صرف کی درجہ بندی کرتے ہوئے چند مخصوص اشیائے صرف کو الگ کرسکتے ہیں اور یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ اشیائے ضروریہ (کھانے پینے کی اشیائے، جان بچانے والی ادویات، ضروری خدمات) کی قیمتوں میں دیگر اشیائے صرف کے داموں کے برابر بھاری اضافے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے؟ قوانین اور پالیسیوں کے ذریعے یہ کام انجام دینا کسی کٹھن مرحلے سے کم نہیں۔ ان کا حصول منڈی انتظامیہ کے ذریعے ہی ممکن بنانا ہوگا۔ مگر اس کام کے لیے ریاست کو فوری تحرک لینا ہوگا۔ ایسا تحرک جو ریاستیں اکثر نہیں لیا کرتیں۔

ریاست کے لیے یہ کہنا بہت ہی آسان ہے کہ وہ ذخیرہ اندوزوں کو گرفتار کرے گی یا ان مقامات پر چھاپے مارے گی جہاں وہ سمجھتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کا عمل جاری ہے۔ یہ کارروائیاں اتنی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ مگر اپنی سرگرمی دکھانے کے لیے یہ کارروائیاں بڑی ہی آسان ثابت ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیے: غذائی اجناس کی سپلائی چین پر لاک ڈاؤن کے منفی اثرات

رسد یا طلب کو پہنچنے والے دھچکے کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں۔ ریاست کے لیے اس معاملے کا ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر آپ قیمتوں میں تبدیلی نہیں چاہتے ہیں تو رسد میں تبدیلی پیدا کردی جائے کیونکہ طلب کو سنبھالنا عام طور پر آسان نہیں ہوتا۔ مگر منڈی کے بل بوتے پر چلنے والے نظام میں رسد کو سنبھالنا کوئی معمولی کام نہیں۔

جہاں اشیائے صرف اور خدمات کا مختصی عمل منڈی کے میکینزم کے ذریعے انجام نہیں دیا جاتا وہاں اس عمل کو دیگر طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے۔ مگر جن اشیائے صرف اور خدمات کو منڈی کے ذریعے فراہم کیا جا رہا ہے ان کی قیمتوں کو ایک ہی سطح پر یا مقررہ حدود میں رکھنا آسان نہیں ہے۔ یہ بات تمام ہی ریاستوں بالخصوص ان پر صادق آتی ہے جہاں ریگولیٹری صلاحیت محدود ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں اسی الجھے ہوئے نظام کے ساتھ ہی رہنا ہوگا جس میں طلب اور رسد کو اچانک دھچکا پہنچنے پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے۔

اگر چند اشیائے صرف کو علیحدہ کیے جانے کی بات پر عمل ہوتا ہے تو محتاط رہتے ہوئے ان کا چناؤ کیا جائے (مثلاً جان بچانے والی ادویات اہم ہیں) اور جن افراد کو ان اشیائے صرف کی ضرورت ہے ان کے لیے ان اشیاء کی فراہمی کے لیے مختلف طریقوں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

تاہم منڈیوں کی فراہم کردہ وافر مقدار میں اشیائے صرف اور خدمات کے معاملے میں یہ طریقہ کار مددگار ثابت نہیں ہوسکتا۔ وافر مقدار کے لیے منڈنوں کو مستحکم کرنے اور عام ضابطہ بندی کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی حل موجود نہیں ہے۔


یہ مضمون 26 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں