روس، طالبان نے امریکی اخبار کا دعویٰ مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 28 جون 2020
طالبان نے کہا کہ معاہدے کے بعد اب امریکیوں پر حملے بند کیے ہیں—فائل فوٹو: اے پی
طالبان نے کہا کہ معاہدے کے بعد اب امریکیوں پر حملے بند کیے ہیں—فائل فوٹو: اے پی

روس اور طالبان نے امریکی اخبار کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ روسی فوجی انٹیلی جنس یونٹ نے طالبان جنگجوؤں کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے رقم کی پیشکش کی تھی۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کئی ماہ بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ روسی ملٹری انٹیلی جنس نے گزشتہ برس کامیاب حملوں کے بعد طالبان کو انعامات کی پیشکش کی تھی۔

مزیدپڑھیں: روس نے امریکی فوجیوں کو مارنے کیلئے افغان جنگجوؤں کو انعام کی پیشکش کی، امریکی اخبار

رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کے عہدیداروں نے کہا تھا کہ طالبان سے وابستہ جنگجوؤں یا ان کے ساتھ قریبی وابستہ عناصر نے روسیوں سے کچھ انعام کی رقم وصول کی تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ کن حملوں کے بدلے انہیں کتنی رقم دی گئی۔

تاہم وائٹ ہاؤس، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اور ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سے متعلق خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو جواب دینے سے انکار کردیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں روسی سفارتخانے نے رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں 'بے بنیاد اور من گھڑت' قرار دیا۔

انہوں نے ٹوٹٹ میں مزید کہا کہ 'ان دعوؤں سے واشنگٹن اور لندن میں روسی سفارتخانوں کے ملازمین کی زندگی کو براہ راست خطرہ لاحق ہے'۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'طالبان کے کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ اس طرح کے تعلقات نہیں ہیں اور امریکی اخبار کی رپورٹ طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'روسی خفیہ ایجنسی کے ساتھ اس قسم کے معاہدے بے بنیاد ہیں، ہمارے حملے اس سے پہلے برسوں سے جاری تھے اور ہم نے اپنے وسائل سے یہ کام کیا۔'

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ 'یہ امریکیوں کے ساتھ ہمارے معاہدے کے بعد تبدیل ہوا اور ان کی زندگی محفوظ ہے اور اب ہم ان پر حملے نہیں کر رہے'۔

مزید پڑھیں: افغان امن معاہدہ ٹوٹنے کے قریب ہے، طالبان کا امریکا کو انتباہ

واضح رہے کہ تقریباً 20 برس تک طالبان سے جنگ کے بعد امریکا، افغانستان سے انخلا، امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کے مختلف حصوں پر قابض جنگجو گروہ کے درمیان امن کے حصول کی کوششوں کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔

رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

امریکی عہدیداران اور نیٹو نے مئی کے اواخر میں کہا تھا کہ اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب طالبان سے اتفاق کردہ شیڈول سے قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8 ہزار 600 کے قریب ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں