بنگلہ دیش نے جماعتِ اسلامی کو غیر قانونی قرار دیدیا

شائع August 1, 2013

بنگلہ دیش میں ڈھاکہ ہائی کورٹ کے باہر یکم اگست کو پولیس اہلکار چوکنا کھڑے ہیں۔ اے ایف پی تصویر۔
بنگلہ دیش میں ڈھاکہ ہائی کورٹ کے باہر یکم اگست کو پولیس اہلکار چوکنا کھڑے ہیں۔ اے ایف پی تصویر۔

ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں ڈھاکہ ہائی کورٹ نے جمعرات کو ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی، جماعتِ اسلامی کی ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹریشن پر پابندی عائد کردی ہوئے اسے غیرقانونی قرار دیا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے چیف جج معظم حسین نے کہا،' اسے آج کی تاریخ میں غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے،'

اس موقع پر بنگلہ دیشی دارالحکومت میں سخت سیکیورٹی تھی اور خدشہ ہے کہ فیصلہ بد امنی کی وجہ بن سکتا ہے۔

ہائی کورٹ نے جماعتِ اسلامی کی قانونی حیثیت پر فیصلہ اس درخواست کے جواب میں دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جماعت کا منشور(چارٹر) ملک کے سیکولر آئین سے متصادم ہے۔

اس فیصلے سے سیاسی طور پر حساس ملک میں جماعت کے حامیوں کی جانب سے نئے فسادات کا خدشہ ہے۔ اس سے قبل جماعت کےاراکین پر جنگی جرائم کے مقدمات اورانہیں سزائے موت سمیت سخت ترین سزا دینے پر بھی فسادات چھڑے ہیں جن میں کئی افراد ہلاک ہوچکےہیں۔

اس موقع پر ریپڈ ایکشن بٹالین کے پولیس افسران اور اراکین کورٹ کےباہر تعینیات تھے تاکہ مزید کسی ناخوشگوار حادثے سے نمٹا جاسکے۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے کمشنر معروف حسین سردار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے کورٹ اور اس کے اطراف کےعلاقے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے ہیں

بنگلہ دیش میں صوفی مسلمانوں کے ایک گروہ اور دیگر درجن بھر تنظیموں اور افراد نے سیکولر حکومت آنے کے چند دنوں بعد جنوری 2009 میں جماعت کی رجسٹریشن ختم کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل، شیخ رفیق الاسلام نے بدھ کو اے ایف پی کو بتایا کہ جماعت کے منشور میں اقلیتوں اور خواتین کے خلاف امتیازات ہیں اور وہ مذہبی قوانین پر زور دیتی ہے۔

اس پر وکیلِ دفاع تنزل اسلام نے کہا کہ پارٹی منشور کی کوئی شق آئین کیخلاف نہیں۔

بنگلہ دیش کے سیکولر حلقے ایک عرصے سے یہ تقاضہ کررہے ہیں کہ 1971 کی جنگ میں جماعتِ اسلامی کی جانب سے بنگلہ دیش کی مخالفت کی وجہ سے اس پر پابندی عائد کی جائے۔

بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے لیڈروں پر مقدمات چلائے جارہے ہیں جن میں سے چار اہم ترین لیڈروں کو بنگلہ دیش کی آزادی کی مہم میں جنگی جرائم ، قتل، مذہبی امتیاز اور زنا پر سزائے موت بھی دی جاچکی ہے۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، اس کے بعد بنگلہ دیش کے طول و عرض میں سڑکوں پر فسادات رونما ہوئے جن میں سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

جماعت کا مؤقف ہے کہ یہ مقدمات ان کی جماعت کو ختم کرنے کی ایک سازش ہیں جو حزبِ اختلاف کی ایک اہم قوت ہے۔

جماعت کے ایک سینیئر آفیشل عبداللہ طاہر نے حکومت کی جانب سے ایک ایسی جماعت کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا جس کے ہزاروں لاکھوں حامی افراد بنگلہ دیش میں موجود ہیں۔

' ہمارے رہنما پر جنگی جرائم کا پہلا مقدمہ چلاتے ہی، ہمارے 50,000 کارکن اور لیڈر گرفتار کئے جاچکے ہیں،' انہوں نے اے ایف پی کو بتایا جبکہ کہا کہ پولیس ان کے پانچ لاکھ حامیوں پر پہلے ہی مختلف مقدمات قائم کرچکی ہے۔

بنگلہ دیش کی آبادی لگ بھگ پندرہ کروڑ ہے جس میں نوے فیصد  مسلمان شامل ہیں ۔ 1998 میں اس کے آئین میں ترمیم کے بعد اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا تھا ۔

لیکن بنگلہ دیش کی تشکیل کے بعد اس کی مرکزی سیکولر جماعت نے سیاست میں مذہب کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی۔

تبصرے (4) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Aug 01, 2013 03:49pm
بہت اعلئ فیصلہ هے اور اسکا خیرمقدم کرتے هیں
Abdul Shakoor Aug 02, 2013 07:49pm
بد ترین فیصلہ ہے ہم اسکی پر زور مذمت کرتے ہیں ٫
Abdul Shakoor Aug 02, 2013 07:52pm
الحاد پسند اور نام نہاد لبرل حضرات کے یہاں آذادئ رائے ہمیشہ یک طرفہ ہوتی ہے۔
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 29 جون 2025
کارٹون : 28 جون 2025