'پائلٹس سے متعلق معلومات موجود ہیں، 200 فیصد تصدیق کے بعد ہی منکشف کریں گے'

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2020
شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے ہمیشہ اپنے کاروبار کو ملک کے مقابلے میں اہمیت دی — فوٹو: ڈان نیوز
شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے ہمیشہ اپنے کاروبار کو ملک کے مقابلے میں اہمیت دی — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ کراچی میں طیارہ حادثے کے بعد حکومت نے سرکاری اور نجی ایئرلائنز کے پائلٹ سمیت تمام دیگر عملے کی تعلیم و قابلیت اور ان کے لائسنس سے متعلق از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت سول ایوی ایشن اتھارٹی کے انتظامی امور میں مسائل کی نشاندہی ہوئی تھی۔

اسلام آباد میں وفاقی کابینہ سے متعلق پریس بریفنگ کے دوران سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ جائزہ رپورٹ میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے امور میں کچھ مسائل کی نشاندہی ہوئی۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: انکوائری کمیشن میں مفاد کا ٹکراؤ سامنے آ رہا ہے، رضا ربانی

خیال رہے کہ 22 مئی کو پی آئی اے کی لاہور سے کراچی آنے والی پرواز رن وے سے محض چند سو میٹرز کے فاصلے پر رہائشی آبادی میں حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں طیارے کے عملے کے 8 اراکین سمیت 97 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ 2 مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے تھے۔

اس دوران سینیٹر شبلی فراز نے مقامی اور بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے اعلامیہ پڑھ کر بھی سنایا۔

شبلی فراز نے کہا کہ 'فرانزک تحقیقات میں نشاندہی کے بعد تمام مشتبہ پائلٹس کو 25 جون سے گراؤنڈ کردیا گیا، انتظامی سطح پر فرائض انجام دینے والے 5 افسران کو معطل کرکے ان کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی ہے'۔

وفاقی وزیر نے اعلامیہ پڑھتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان کی تمام ایئرلائنز اور سول ایوی ایشن اتھارٹی میں اصلاحات کا سلسلہ جاری رہے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'متعلقہ سرکاری اداروں کو ہدایت کی گئی ہیں کہ وہ بین الاقوامی اداروں سے رابطہ بحال کریں اور ان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھائیں اور مسافروں کو پریشانی سے بچائیں'۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ 'گراؤنڈ کیے گئے پلائٹس کے علاوہ تمام ایئر لائن بشمول قومی اور سرکاری کے پلائٹس بھرپور قابلیت اور صلاحیت کے حامل ہیں اور وہ اپنے فرائض ادا کررہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: ورثا کو فی کس 50 لاکھ روپے ملیں گے، ترجمان پی آئی اے

اپوزیشن سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'اپوزیشن ملک کے لیے نہیں بلکہ احتساب سے بچنے کے لیے یکجا ہوئے ہیں، اگر وزیراعظم عمران خان ایک طرح کا این آر او دے دیں تو یہ ہی اپوزیشن کہے گئی کہ عمران خان جیسا لیڈر کوئی نہیں ہے'۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پائلٹس سے متعلق تمام معلومات موجود ہیں لیکن 200 فیصد تصدیق کے بعد ہی منکشف کریں گے تاکہ تنقید کی گنجائش باقی نہ رہے، دوم اس مسئلے کے ساتھ عالمی سطح پر اثرات پیدا ہوں گے اس لیے غیر سنجیدہ اقدام سے گریز کریں گے'۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ پی آئی اے کے اثاثوں کی ایویلویشن کررہے ہیں اور کسی بھی فیصلے سے پہلے عوام کو اعتماد میں لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور جو دولت ملک کے باہر لے کر گئے وہ واپس لائیں کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کو مالی وسائل درکار ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: عید کے موقع پر طیارہ حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین اشک بار

اپوزیشن سے متعلق سوال کے جواب میں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن جھوٹ پر مبنی بیان کر کے عوام کو بدگمان کرنا چاہتی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تمام اتحادی ایک جگہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے 20 برس حکومت کی لیکن موجودہ حکومت سے 20 ماہ میں حساب مانگتے ہیں، اپوزیشن کی شوگر ملز اور دیگر کاروبار تھے اور انہوں نے ملک کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ہمیشہ اہمیت دی۔

شبلی فراز نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بلاول نے اپنی زندگی میں کیا کیا، انہیں تو محض وراثت میں سیاست مل گئی اور اب ہمیں سمجھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے قومی ایئر لائن اور اسٹیل ملز کو موجودہ اسٹیج پر پہنچایا وہ اس کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے نوکریاں بیچی ہیں اور اب وہ پریشان ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے بجلی کی لوڈشیڈنگ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ سابقہ حکومتوں نے بجلی کی جنریشن پر زیادہ توجہ جبکہ ٹرانسمیشن پر کم توجہ دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ متعدد مقامات پر ٹرانسمیشن کمزور ہوچکی ہیں، متعدد جگہ پر بل کی ادائیگی نہیں ہوتی جس پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مزیدپڑھیں: طیارہ حادثے سے متاثرہ مکانات کے نقصان کا جائزہ لینے کیلئے سروے

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے شہروں اور دیہات میں متروکہ املاک پر ہسپتال یا تعلیمی ادارے بنانے سے متعلق انتہائی سخت طریقہ کار وضع کیا ہے جس کے تحت پرائیوٹ سیکٹر سے لوگ کام کرسکتے ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ مذکورہ طریقہ کار کے تحت پرائیوٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ بزنس بھی کریں اور مقامی کمیونٹی کو سہولیات بھی فراہم کریں۔

انہوں نے بتایا کہ ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018 میں ترامیم کی تجاویز پر غور مؤخر کردیا گیا کیونکہ کابینہ نے اراکین کا خیال تھا کہ اس پر مزید غور وفکر کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں