آیا صوفیہ عدالتی فیصلے کے بعد دوبارہ مسجد بن گیا، ترک صدر

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2020
ترکی کی سپریم عدالت نے کمال اتاترک کے فیصلے کو قانون سے ماورا قرار دیا—فوٹو:رائٹرز
ترکی کی سپریم عدالت نے کمال اتاترک کے فیصلے کو قانون سے ماورا قرار دیا—فوٹو:رائٹرز

ترک صدر رجب طیب اردوان نے 1934 میں مصطفیٰ کمال اتاترک کی جانب سے میوزیم میں تبدیل کی گئی آیا صوفیہ مسجد کو عدالتی فیصلے کے بعد بحال کرتے ہوئے نماز کے لیے کھولنے کا اعلان کردیا۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق طیب اردوان نے عالمی سطح پر آیا صوفیہ کی حیثیت تبدیل نہ کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود عدالتی حکم آتے ہی مسجد کا اعلان کردیا۔

طیب اردوان نے کہا کہ 'آیا صوفیہ مسجد کی انتظامیہ کو مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ عبادت کے لیے کھلی ہوگی'۔

مزید پڑھیں:طیب اردوان کا مسلمانوں، عیسائیوں کے درمیان متنازع مقام کو مسجد بنانے کا فیصلہ

اس سے قبل اردوان نے یونیسکو کے عالمی ورثے کی جگہ کو مسجد کے طور پر بحال کرنے کی تجویز دی تھی، جو بازنطینی عیسائیوں اور عثمانی خلافت کے درمیان مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتا تھا اور اب ترکی کا سیاحوں کی سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بننے والا مقام بن چکا ہے۔

آیاصوفیہ نماز کے لیے کھلی ہوگی، رجب طیب اردوان — فوٹو:رمضان رفیق
آیاصوفیہ نماز کے لیے کھلی ہوگی، رجب طیب اردوان — فوٹو:رمضان رفیق

چھٹی صدی عیسوی میں بننے والی عمارت کی حیثیت تبدیل کرنے کی مخالفت کرنے میں امریکا، یونان اور چرچ کے رہنما سرفہرست تھے اور تشویش کا اظہار کیا تھا۔

واضح رہے کہ جدید ترکی کے سیکیولر بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے اپنی حکمرانی کے ابتدائی دنوں میں ہی آیا صوفیہ مسجد کو میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔

انقرہ میں ترک سپریم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 'اس جگہ کا مسجد کے لیے تعین کردیا گیا تھا اس لیے اس کو قانونی طور پر کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں ہے'۔

فیصلے میں کمال اتاترک کے دستخط شدہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ '1934 میں کابینہ کی جانب سے مسجد کو ختم کرکے اس کو میوزیم قرار دینا قانون کے زمرے میں نہیں آیا'۔

آیا صوفیہ کے لیے 16 برسوں سے قانونی جنگ لڑنی والی ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ آیا صوفیہ عثمانی رہنما کی جائیداد تھی اور انہوں نے شہر پر 1453 میں قبضہ کرلیا تھا اور 900 سال پرانے بازنطینی چرچ کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اردوان ایک سچے مسلمان ہیں اور انہوں نے گزشتہ برس مقامی انتخابات سے قبل عمارت کی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے شروع ہونے والی مہم کی حمایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:ترکی کی مسجد ضرورت مندوں کیلئے ’سپر مارکیٹ‘ میں تبدیل

عثمانی خلیفہ نے مسجد کے مینار تعمیر کروائے تھے اور عمارت کے اندر قدیم عیسائیوں کی یادگار کے ساتھ خلفائے راشدین کے نام عربی میں تحریر کیے تھے۔

یونیسکو کی ترکی کو مسجد بنانے پر تنبیہ

خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے ترکی کو استنبول میں بازنطینی دور کے آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے سے خبردار کرتے ہوئے زور دیا کہ اس فیصلے سے قبل مذاکرات کریں۔

یونیسکو کی ترجمان نے کہا کہ 'اس اقدام سے متعدد وعدے اور قانونی پیچیدگیاں وابستہ ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک ریاست کو اس کی حدود میں غیر معمولی عالمی حیثیت کے ورثے پر کوئی اثر نہ پڑنے کو یقینی بنانا چاہیے'۔

ترجمان نے کہا کہ کسی بھی قسم کی تبدیلی سے قبل یونیسکو اور اس کی عالمی ورثہ کمیٹی کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ آیا صوفیہ استنبول کے تاریخی علاقے کے اندر ہے اور اس کی حیثیت میوزیم کی ہے جس کی تکرار ترکی نے خطوط کے ذریعے کی ہے۔

یونیسکو کی ترجمان کا کہنا تھا کہ 'ہم ترک حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی حیثیت رکھنے والے مقام سے متعلق کسی فیصلے سے پہلے مذاکرات شروع کریں'

روسی آتھوڈوکس چرچ کا اظہار افسوس

روسی آرتھوڈوکس چرچ کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس ہے کہ عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے تشویش کو مدنظر نہیں رکھا اور اس فیصلے سے بڑے اختلافات جنم لے سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: استنبول: قدیم تہذیبوں کی راہ گزر

دنیا بھر کے 30 کروڑ آرتھوڈوکس عیسائیوں کے روحانی پیشوا کا کہنا تھا کہ عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے سے عیسائیوں کو مایوسی ہوگی اور مشرق اور مغرب میں تقسیم ہوگی۔

دوسری جانب امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور یونان نے بھی ترکی پر زور دیا تھا کہ عمارت کو میوزیم کے طور پر برقرار رکھے۔

تاہم ترک ایسوسی ایشن نے آیا صوفیہ مسجد کو بحال کرنے اور عمارت کی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے بھرپور مہم چلائی اور ان کا موقف تھا کہ مسلم اکثریتی ملک ترکی کی حیثیت کا بہترین مظہر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں