مقبوضہ کشمیر میں سربرینکا کی طرز پر نسل کشی کا خطرہ ہے، عمران خان

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2020
وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا— فوٹو: اسکرین شاٹ
وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا— فوٹو: اسکرین شاٹ

وزیر اعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 1995 میں سربرینکا کی گئی نسل کشی کی طرز پر مقبوضہ کشمیرمیں بھی نسل کشی کی جا سکتی ہے اور عالمی برادری سے نوٹس لیتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا۔

وزیر اعظم نے اس نسل کشی کی 25ویں برسی کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سربرینکا میں جو نسل کشی کی گئی وہ انہیں اب بھی یاد ہے۔

مزید پڑھیں: بوسنیا اور ہرزیگووینا کی سیر کا ناقابل فراموش تجربہ

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا تھا کہ اقوام متحدہ کی محفوظ پناہ گاہوں میں اس قتل عام کی اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے، مجھے اب بھی سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ عالمی برادری اس طرح کی چیز کی اجازت کیسے دے سکتی ہے۔

واضح رہے کہ 1995 میں بوسنیا کے علاقے سربرینکا میں سرب فوجوں نے جنگلات میں پیچھا کر کے ہزاروں افراد کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا تھا ان میں سے اکثریت مسلمان مرد و خواتین کی تھی۔

اسے یورپ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے بدترین سانحہ قرار دیا جاتا ہے اور اس قتل عام کو نسل کشی قرار دیا گیا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ اس قتل عام سے سبق سیکھنا انتہائی اہم ہے، انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بوسنیا کے قصائی‘ کی کہانی کا المناک اختتام

انہوں نے کہا کہ ہمیں کشمیری عوام کے مسائل نظر آ رہے ہیں، 8 لاکھ فوج نے 80 لاکھ کشمیریوں عوام کا محاصرہ کر رکھا ہے، ہمیں خطرہ ہے کہ وہاں بھی اس طرح کی چیز ہو سکتی ہے۔

وزیراعظم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کا نوٹس لے اور اس طرح کے قتل عام کو دوبارہ رونما نہ ہونے دے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کی طرف سے میں بوسنیا کے عوام کو اپنا سلام پیش کرتا ہوں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی وزیر اعظم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دنیا کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسا سانحہ دوبارہ رونما نہ ہو۔

مزید پڑھیں: بوسنیا قتلِ عام میں ملوث رہنما کو تاحیات قید کی سزا

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ 1995 کے قتل عام سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔

یوگوسلاویا ٹوٹنے کے بعد 1992 میں شروع ہونے والی بوسبنیا کی جنگ میں سرب، کروشین اور بقوسنیا کے مسلمان ایک دوسرے سے نبردآزما تھے اور 1995 میں امن معاہدے سے قبل اس تنازع میں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے گئے۔

سربرینکا میں جو کچھ ہوا وہ عالمی برادری کے لیے شرم کا مقام ہے کیونکہ اس علاقے کو 1993 میں اقوام متحدہ نے عوام کے لیے محفوظ مقام قرار دیا تھا۔

29مارچ 1993 کو سرب خواتین اور بچوں کو ایک ٹرک میں بھر کر محفوظ مقام پر منتقل کیا جا رہا ہے— فوٹو: اے پی
29مارچ 1993 کو سرب خواتین اور بچوں کو ایک ٹرک میں بھر کر محفوظ مقام پر منتقل کیا جا رہا ہے— فوٹو: اے پی

جب دو سال بعد بوسنیا کی سرب افواج کو چڑھائی کا موقع ملا تو بوسنیا کے 15ہزار مسلمانوں نے جان بچانے کے لیے جنگلات کا رخ کیا اور اس سے دگنے افراد نے اس امید کے ساتھ سابقہ صنعتی علاقے میں قائم اقوام متحدہ کے رہائشی علاقوں کا رخ کیا کہ نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے امن پسند نمائندے ان کا تحفظ کر سکیں گے۔

لیکن یہ امن کے نمائندے بھی سربیا کی افواج کے سامنے بے بس نظر آئے اور 2ہزار مرد و لڑکوں کو اقوام متحدہ کے ان رہائشی علاقوں سے نکال کر قتل کردیا گیا اور عورتوں اور بچیوں کو بوسنیا کی حکومت کے زیر قبضہ علاقے میں لے گئے۔

مزید پڑھیں: مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث جنرل عدالت میں زہرپی کر دم توڑ گئے

ادھر سربرینکا میں پناہ کے لیے جنگلات کا رخ کرنے والے مسلمانوں کو سرب فوج نے چن چن کر نشانہ بنایا اور بعد میں اس نسل کشی کے ثبوت چھپانے کی بھی کوشش کی گئی اور لاشوں کو بلڈوزر کے ذریعے اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد آنے والے سالوں میں ان لاشوں کو نکالا گیا اور مقتولین کی ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کی گئی اور تقریباً ایک ہزار مرنے والوں کی شناخت ہونا اب بھی باقی ہے۔

سربرینکا میں نسل کشی سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہونے پر ہیگ میں اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے خصوصی ٹریبونل نے ان جرائم کی سربراہی کرنے والے سرب فوج کے سربراہ ریڈووان کریڈزک اور کمانڈو ریٹکو ملیڈچ سمیت 50 سے زائد سرب فوجیوں کو 700سال سے زائد قید کی سزا سنائی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں