لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

بھارتی ریاست بہار میں کوسی ندی کے کنارے روہت شرما نے حال ہی میں تعمیر کردہ اپنے چھوٹے گھر کو خود ہی توڑ دیا۔ وہ ملبے کی اینٹوں کو ایک دوسرے گھر کی تعمیر کے لیے محفوظ کر رہے ہیں بس انہیں ندی کے تیز بہاؤ کی شدت کم ہونے کا انتظار ہے۔

کوسی کو بہار کے دکھ و تکالیف سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ہر سال بالائی ہمالیہ کے گلیشیرز اور گھاٹیوں سے پوری شدت سے بہہ کر آنے والے پانیوں کو اس سرزمین کے میدانوں تک پہنچاتی ہے جہاں گوتم بدھ اپنے قدموں پر چل کر گئے اور مادیت پرستی کی زیادتی سے خبردار کیا تھا۔

پھر ڈھلوانیں کوسی کے بہاؤ کی شدت کو گھٹا دیتی ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ہمالیہ سے شروع ہونے اور سندھ و گنگ کے میدان پر بسی زندگیوں کی بقائے حیات کی ضامن ندیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کے پاس اب بھی کورونا سے فائدہ اٹھانے کا پورا پورا وقت ہے

دنیا پر ایک بڑا خطرہ منڈلانے لگا ہے، خدا نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو لیکن نریندر مودی، ڈونلڈ ٹرمپ اور جائیر بولسونارو جیسے انہی کی طرح کے نیو لبرل، دائیں بازو والے ان کے دیگر دوستوں کی مہربانی سے ہماری زمین پر موجود زیادہ تر دریا کے پیٹوں کے خشک ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے اور خدشہ ہے کہ مستقبل میں روہت کمار کے پوتے پوتیوں کو لنگر ڈالنے لائق پانیوں سے بھری کسی دوسری ندی کی تلاش شروع کرنی پڑسکتی ہے۔

قحط سالی اور سیلاب کو ہماری زمین کے ماحولیاتی نظام میں یکساں مقام حاصل ہے۔ 18ء-1917ء کی شدید قحط سالی کے دوران کشمیر میں دریائے جہلم مکمل طور پر خشک ہوگیا تھا۔ مغربی ہمالیائی علاقے میں 48 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد گلیشیر برف موجود ہے، یعنی قطبوں کے بعد اسی علاقے میں سب سے زیادہ برف پائی جاتی ہے۔ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے نہ صرف اپنی چوٹیوں اور وادیوں بلکہ دریائے سندھ، گنگا اور برھمہ پترہ کو اپنی کوکھ سے جنم دے کر لاکھوں زندگیوں کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔

جب بھارتی یومِ جمہوریہ کے جشن کے موقعے پر جائیر بولسونارو نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی اور پھر کچھ دنوں بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے خصوصی دورہ کیا تو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ یہ وہی برازیلی رہنما ہیں جن کی نگرانی میں ایک دن میں 100 فٹ بال میدانوں کے برابر امازون جنگلات کا صفایا کیا جاتا رہا۔

ٹرمپ نے کبھی بھی موسمیاتی تبدیلی پر یقین نہیں کیا۔ اگر کورونا وائرس کی وبائی پھوٹ ان کے منصوبوں پر پانی نہ پھیرتی تو اب تک امریکا میں ماحولیاتی نظام کے لحاظ سے غیر مستحکم تصور کیے جانے والے علاقوں میں زہریلی پائپ لائنیں بچھ رہی ہوتیں۔

مزید پڑھیے: کورونا وائرس اور غربت کی چکی میں پستے بھارتی

اپنی ازلی قدامت پسندی پر یقین نے مودی کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ہر صبح ریاستی پارلیمنٹ کو جیتنے کے کسی نہ کسی نئے منصوبے کے ساتھ ہوتی ہے، چاہے وبا پھیل رہی ہو یا پھر پانی کی سطح بلند ہو رہی ہو۔ کورونا سے لڑنے کے لیے جب ان کی جانب سے دی گئی تالیاں بجانے اور برتنوں کو کھڑکانے کی تجویز نے کشش کھونا شروع کی تو انہوں نے اپنی توجہ بہار میں ہونے والے انتخابات کی طرف مبذول کردی۔ انتخابات کو جیتنے کے لیے انہیں کاروباری لابیوں کو خوش کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ ماہ جب اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کورونا وائرس کی وبا کے بعد بہتر ہونے والے ماحولیاتی نظام کے تقاضوں کے مطابق معیشتوں کی بحالی سے متعلق بات کی تو یوں لگا کہ جیسے وہ مودی کی جانب سے نجی شعبے کو کان کنی کی اجازت دینے کے آلودہ منصوبوں پر اپنا ردِعمل دے رہے ہوں۔

انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ 'ہم پرانے طریقوں کو اپناتے ہوئے اس پرانے نظام کو زندہ نہیں کرسکتے کہ جس نے بحران کو بد سے بدتر بنا دیا ہے۔ مثلاً کسی بھی ملک میں کورونا وائرس کے بحران سے نکلنے سے متعلق منصوبوں میں کوئلے کو شامل کرنے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ یہ وقت توانائی کے ایسے وسائل پر سرمایہ کاری کرنے کا ہے جو نہ آلودگی پھیلاتے ہوں، جن سے کاربن کا اخراج بھی نہ ہوتا ہو جبکہ اچھی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں اور پیسوں کی بچت ہو‘۔

لیکن مودی نے تو یکسر الٹا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ جب بھارتی شہری کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوشگوار نتائج یعنی صاف ہوا میں سانس لینے کا مزہ لوٹ رہے تھے تو عین اس وقت کوئلے کے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔ اس مبیّنہ اجازت کے خلاف آسام کے ان علاقوں میں ہنگامہ سا کھڑا ہو رہا ہے جن کی نشاندہی ہاتھیوں کی جنگلی پناہ گاہوں کے طور پر کی گئی تھی۔

مزید پڑھیے: کورونا وائرس کہیں جنگلی حیات کا جوابی وار تو نہیں؟

کرہ ارض کی بقا کو سب سے زیادہ خطرہ ماحولیاتی آفت اور ایٹمی تباہ کاریوں سے ہے اور بھارت دونوں کے سائے تلے سانسیں لے رہا ہے۔ خالصتاً ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو حالات کچھ اور ہونے چاہئیں۔

یقیناً مائیک پومپیو جیسے شخص پر اگرچہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی بات کو سمجھ ضرور سکتے ہیں کہ جن کا ماننا ہے کہ حریف ملک کی تباہی صرف خدا کی رضا سے ممکن ہے۔ ان کی دوغلی ذہنیت پر کیا کہیں کہ ایک طرف وہ ایران سے نفرت کرتے ہیں لیکن دوسری طرف حجتیہ کے انتہا پسند اراکین کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں۔

دونوں ہی دنیا کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ جنت کی طرف بڑھ سکیں۔ حجتیہ نے سوویت یونین کی حدود میں میزائلوں کو پھینک کر سوویت امریکی تنازع کو ہوا دینے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ خمینی نے انہیں گرفتار کروایا تھا۔ اب پومپیو کو کون روکے گا؟

بینجمن نیتن یاہو کا داغہ گیا وژن بھی الہٰی وعدہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ یروشلم کا مشرقی حصہ جہاں سے ٹیمپل ماؤنٹ اور الاقصیٰ مسجد دونوں کا نظارہ کیا جاسکتا ہے، وہاں سیکڑوں ہزاروں قدیم اور نئی قبریں موجود ہیں۔ مدفون افراد کے پیر شہر کی طرف ہیں کیونکہ دوبارہ زندہ ہونے کا عمل وہیں پر شروع ہوگا اور انہیں شہر مقدس کی طرف لے جائے گا۔

ماحولیاتی آفت یا ایٹمی معدومیت ہندو برادری سے کوسوں دُور ہونی چاہیے کہ جن کی جانوروں اور پودوں سے محبت ان دونوں کو معبود کے مرتبے تک لے گئی۔ یہ جس دنیا کی عبادت کرتے ہیں اسے یہ دھواں ہوتے دیکھنا بالکل بھی نہیں چاہیں گے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر ہندو دیومالائی قصوں کا محور جنگلات اور برف پوش پہاڑ ہیں۔

کشمیر کی ایک غار میں موجود امر ناتھ مندر میں آئس اسٹالگامائٹ کو شِیو دیوتا کی علامت کے طور پر پوجا جاتا ہے جو کئی بار گرمائش سے پگھل بھی چکا ہے۔ خبروں کے مطابق وہاں بھیڑ کے باعث پیدا ہونے والی گرمائش اور شدید گرمیوں کا اثر گھٹانے کے لیے ایئر کنڈیشنر بھی نصب کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیے: جنوبی ایشیا میں لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی شکار عروج پر کیسے پہنچا؟

اسی طرح برف پوش کیلاش پہاڑ بھی ہندوؤں کے لیے مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ چونکہ یہ تبت میں واقع ہے اس لیے ہندو زائرین کو اس مقام کی زیارت کے لیے چین کی جانب سے خصوصی ویزے جاری کیے جاتے ہیں۔ تصور کیجیے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ پہاڑ اپنے داستانوی برف پوش سے محروم ہونا شروع ہوجائے تو کیسا رہے گا۔

مضبوط قوم سے متعلق مودی کا وژن دراصل ناقابلِ تسخیر سرحدوں میں گھرے ہندو راشٹریہ کے تصور پر مبنی ہے۔ جب بلند ہوتا سمندر پورے ڈیلٹا کو ہڑپ کرجائے گا تو بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرنے والوں کو کس طرح روکا جاسکے گا؟ یا پھر جب مالدیپ بحرِ ہند میں غرق ہوجائے گا اور وہاں کے عوام مدد کے لیے پکاریں گے تو کیا ہوگا؟

حال ہی میں جب بھارت اور چین منہ ماری میں مصروف نظر آئے اس وقت وینکوور سے تعلق رکھنے والے ایک دوست پروفیسر نے مجھے کتاب پر تبصرہ بھیجا۔ جوناتھن مِنگل کی لکھی کتاب بعنوان World Without Ice میں ان شواہد کا بہترین مجموعہ پیش کیا گیا جو ہمارے مستقبل کے حوالے سے تشویشناک نتائج کی طرف لے جاتے ہیں۔ حالیہ 6 دستاویزات جن میں کتابیں اور رپورٹس شامل ہیں، ان کا سہارا لیتے ہوئے مِنگل پُرزور انداز میں یہ دلائل پیش کرتے ہیں کہ موسمیاتی مسائل سے متعلق ہم اپنی موجودہ سمجھ بوجھ سے ممکنہ طور پر انتہائی ناقص نتائج اخذ کرتے ہیں۔

لکھاری ایک رپورٹ بعنوان The Hindukush Himalaya Assessment پر خصوصی دلچسپی کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں جس میں پہاڑوں کی پگھلتی برف کے مادی و سیاسی نتائج کو تفصیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مودی کی ٹیم میں شامل افراد کو اسے پڑھنا چاہیے لیکن یہ کتاب روہت کمار اور بہار میں ان جیسے اپنے حال پر چھوڑ دیے گئے پڑوسیوں کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔


یہ مضمون 14 جولائی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں