مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ قومی نشریاتی ادارے پی ٹی وی میں ملک دشمن عناصر بیٹھے ہیں اور جو لوگ مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں ان کا کنٹریکٹ ختم کرکے نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے۔

سینیٹ کے اجلاس میں خطاب کے دوران انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرکے کہا کہ پی ٹی وی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تحقیقات کرانا آپ کی بھی ذمہ داری ہے۔

مزیدپڑھیں: پاکستان کا 'غلط' نقشہ نشر کرنے پر پی ٹی وی کے 2 ملازمین برطرف

سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ روایتی کمیٹیوں سے کام نہیں بنے گا بلکہ ہاؤس کی کمیٹی بننی چاہیے۔

واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے 'پاکستان کا غلط نقشہ نشریات میں شامل کرنے' پر 2 ملازمین کو برطرف کردیا تھا جس میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا تھا۔

پی ٹی وی کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 'پی ٹی نیوز پر 6 جون کو پاکستانی نقشے کی غلط تصویر جاری کرنے پر تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی سفارشات پر سخت کارروائی کرتے ہوئے پی ٹی وی کی انتظامیہ نے پیشہ ورانہ کام میں غفلت کے مرتکب ہونے والے 2 ملازمین کو برطرف کردیا'۔

مذکورہ واقعے کو 8 جون کو سینیٹ میں اٹھایا گیا تھا جس کے بعد چیئرمین صادق سنجرانی نے معاملہ قائمہ کمیٹی برئے اطلاعات و نشریات کو بھیج دیا تھا۔

حکومت، کشمیر کے خلاف بات کرنے والوں کو تحفظ فراہم کررہی ہے، مشاہد اللہ

علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر سے متعلق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر فاروق عبداللہ ایک سال سے نظر بند ہیں، ان حالات میں پاکستانی حکومت کیا کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: بہتر مواد دکھانے کے تحت پی ٹی وی نیوز پر نئے پروگرامات کا آغاز

سینیٹر نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر خبردار کیا کہ موجودہ حکومت، کشمیر کے خلاف بات کرنے والوں کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ حکومت، مقبوضہ کشمیر کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کررہی، کشمیری نعرہ لگاتے ہیں کہ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ لیکن ناجانے موجودہ حکومت کس کے ایجنڈے پر ہے۔

مشاہد اللہ نے کہا کہ اس کی حالیہ مثال موجود ہے کہ کابینہ میں ایسے ایسے غیر ملکی لوگوں کو لا کر بیٹھا دیا گیا جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

دوہری شہریت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ میں موجود غیر ملکیوں نے دو سال بعد اثاثے ظاہر کیے لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے اور اب ان کی منی ٹریل ظاہر کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے خلاف تو ایک روپیہ کی کرپشن ثابت نہیں کرسکے لیکن اب یہ بتائیں کہ ان کی منی ٹریل کہاں ہے، کتنا ٹیکس دیا، دو برس کے دوران ٹیکس کیوں نہیں دیا؟

مشاہد اللہ نے کہا کہ ’جو ٹیکس نہ دے وہ پاکستانی عوام کی تقدیر کا فیصلہ کررہے ہیں‘۔

انہوں نے سینیٹ میں موجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو مخاطب کرکے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے اصل لوگوں سے کہتا ہوں کہ دوہری شہریت رکھنے والے کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اے ٹی ایم ہیں‘۔

مزید پڑھیں: دوہری شہریت کا معاملہ: نااہلی کی درخواست پر فیصل واڈا سے جواب طلب

واضح رہے کہ 20 جولائی کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کردیں تھی۔

کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ کے مطابق 19 غیر منتخب کابینہ اراکین میں سے وزیراعظم کے 4 معاونین خصوصی دوہری شہریت کی حامل ہیں۔

جن میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر (امریکا)، معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری (برطانیہ)، معاون خصوصی برائے توانائی ڈویژن شہزاد قاسم (امریکا) اور معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایس ایدروس (کینیڈا) کی شہریت کے حامل ہیں۔

اس کے علاوہ جو معاونین دیگر ممالک کی رہائش رکھتے ہیں، ان میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل (امریکا)، معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف (امریکا)، معاون خصوصی برائے پارلیمانی کوآرڈینیشن ندیم افضل گوندل (کینیڈا) اور تانیہ ایدروس (سنگاپور) شامل ہیں۔

پاکستان میں قانون کے پانچ معیار ہونے پر گاڑی پٹری سے اتری، سینیٹر رضا ربانی

پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے بارے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پہلا قانون انسداد کرپشن سے متعلق منظور کیا گیا اس لیے یہ کہنا کہ پارلیمان یا اراکین پارلیمنٹ احتساب سے گھبراتے ہیں، درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑی پٹری سے وہاں اتری جب ایک قانون کے پانچ معیار ہونے لگے، اگر آپ پر قانون مختلف طریقے سے لاگو ہوگا اگر آپ کا تعلق رولنگ اشرافیہ سے ہے، اگر آپ کا تعلق پاکستان کی رولنگ اشرافیہ سے اور آپ سولین ہیں اس کا اطلاق مختلف ہوگا۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ اگر آپ پاکستان کی اشرافیہ کے مدد گار ہیں تو پھر قانون کا اطلاق مختلف ہوگا، اگر آپ امیر اور طاقتور ہیں تو امیر کے لیے انصاف کے طریقے اور تقاضے مختلف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پانچواں معیار یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کی اور میری طرح عام شہری ہے جس کی داد رسی نہیں ہے تو اس پر قانون کا اطلاق مختلف ہوگا۔

سینٹیر نے کہا کہ یہ پارلیمان کا تاریخی فریضہ ہے کہ سستے انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد کرے۔

رضا ربانی نے کہا کہ موجودہ حالات میں ’وفاقی احتساب کمیشن‘ کی ضرورت ہے جس میں سول، ملٹری، عدلیہ اور دیگر اداروں کی نمائندگی ہو جو نگرانی کر سکے، پاکستان میں انصاف کے بدلتے تقاضوں کی کیا صورتحال ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’تاکہ وہ کمیشن فیصلہ کرے، کوئی مقدس گائے نہ ہو‘۔

سینیٹر نے کہا دونوں ایوان کی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس کے تحت نیا قانون بنایا جائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو موجودہ پارلیمان تاریخ کی مجرم ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں