اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا ہے کہ پنجاب حکومت کے ایک سینئر وزیر نے کس طرح اپنی رہائشی سوسائٹی کے لیے مرکزی شاہراہ سے سرکاری اراضی کا استعمال کرتے ہوئے سڑک تعمیر کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کے سینئر وزیرعلیم خان کے خلاف زمین تجاوزات کے الزام میں ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: نیب کی بڑے سیاستدانوں کے خلاف میگا کرپشن کیسز پر نظرثانی

کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ذریعے عدالت میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق علیم خان نے اپنی پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی کو کوری روڈ سے جوڑنے کے لیے سرکاری اراضی پر تجاوزات قائم کیں۔

دوسری جانب ہاؤسنگ سوسائٹی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس مقصد کے لیے مختص روڈ پر اراضی تعمیر کی تھی لیکن سی ڈی اے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ زمین کسی سڑک کے لیے نہیں تھی اور رپورٹ میں دو بیوروکریٹس کی طرف اشارہ کیا گیا جنہوں نے حال ہی میں سی ڈی اے کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈیولپر ’سی ڈی اے زمین اور پروجیکٹ اراضی کے مابین خلا کے مالک نہیں تھا‘۔

سی ٹی ڈی نے علیم خان کو مئی 2018 میں سڑک تعمیر کرنے کی اجازت دینے میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’9 مئی 2018 کے سی ڈی اے بورڈ کے اس فیصلے نے ڈیولپر کو اجازت نامے کی شرائط کو پورا کرنے کی اجازت دی'۔

مزید پڑھیں: میں نے اپنے تمام اثاثے ظاہر کردیے ہیں، علیم خان

علیم خان کے رہائشی منصوبے اور مرکزی سڑک تک کوئی رسائی نہیں تھی جس کے لیے این او سی درکار تھا، بعدازاں سی ڈی اے نے سوسائٹی تک رسائی کے لیے سڑک تعمیر کرنے کی اجازت دی جس کے بعد وہ این او سی کے اہل ہوئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کہ کیا علیم خان اتنے طاقتور ہیں کہ انہوں نے اپنی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے سرکاری اراضی کا استعمال کیا۔

جس پر سی ڈی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ ہاؤسنگ سوسائٹی نجی اراضی پر قائم ہوئی ہے لیکن سڑک سی ڈی اے سے تعلق رکھنے والی اس زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ 'ہم کیوں اس معاملے کو وفاقی کابینہ کے پاس نہیں بھیجیں گے یا اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل نہیں دیں گے؟'

انہوں نے مذکورہ معاملے میں سی ڈی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی اور سماعت 13 اگست تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ نومبر 2019 میں اس معاملے میں پہلی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ نے سی ڈی اے سے کہا تھا کہ وہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کو حاصل شدہ اراضی کو استعمال کرنے کے لیے دی گئی اجازت کا جواز بنائے اور ’اس عدالت کو مطمئن کرے کہ یہ کوئی معاملہ نہیں ہے جس کا حوالہ دینا ضروری ہے جس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا مذکورہ کیس اقومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت نمٹایا جائے گا۔

مزیدپڑھیں: بد عنوانی کیس: پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

خیال رہے کہ علیم خان کی رہائشی سوسائٹی ’پارک ویو سٹی‘ ایک ناقابل رسائی علاقے میں تعمیر کی گئی اور سی ڈی اے کے ریکارڈ کے مطابق انہیں جون 2018 میں سی ڈی اے کے چیئرمین عثمان اختر باجوہ نے اراضی استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

عثمان اختر باجوہ وزیر اعظم کے دفتر میں ایڈیشنل سیکریٹری بھی تھے۔

بعدازاں سی ڈی اے کے چیئرمین افضل لطیف کے دور میں سڑک کو استعمال کرنے کی اجازت کی منظوری دی گئی۔

اس معاملے کی نشاندہی سی ڈی اے کے پلاننگ ونگ نے کی جس کے سربراہ اس وقت کے ممبر پلاننگ اسد محبوب کیانی تھے جو بعد میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے۔


یہ خبر 4 اگست 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں