ہم چاند کی سطح کے بارے میں یقینی طور پر ہمارے سمندروں کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں، مگر اب سمندری تہہ کے ایک اسرار سے پردہ اٹھنے والا ہے۔

سائنسدانوں اور ماہر غوطہ خوروں کا ایک گروپ سمندر کے حوالے سے انسانی معلومات میں نیا اضافہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

امریکا سے تعلق رکھنے والے موٹ میرین لیبارٹری، فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی، جارج انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی اور یو ایس جیولوجیکل سروے کے ماہرین کی ایک ٹیم سمندر کی تہہ سے بھی نیچے چھپے 'بلیو ہول' کی کھوج فلوریڈا کے گلف کوسٹ میں کرنے والی ہے۔

بلیو ہولز درحقیقت زیرآب چٹانوں میں پیدا ہونے والے سوراخ (sinkhole) کو کہا جاتا ہے جو سمندری تہہ کے فرش سے بھی کافی نیچے ہوتے ہیں۔

فلوریڈا کے اس بلیو ہول کو 'گرین بنانا' کا نام دیا گیا ہے جو سمندری سطح سے 155 نیچے موجود ہے جبکہ اس سوراخ کی گہرائی 425 فٹ ہے۔

موٹ میرین لیبارٹری کی پروگرام منیجر ایملی ہال نے سی این این کو بتایا 'درحقیقت ہم بہار میں اس سوراخ کی کھوج کرنے والے تھے مگر کورونا کے باعث رکنا پڑا'۔

اس مہم کا اصل مقصد 'بلیو ہولز' کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا ہے جو دنیا بھر کے سمندری پانیوں میں موجود ہیں مگر ان کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔

گزشتہ سال فلوریڈا کے شہر Sarasota کے ساحل سے 30 میل دور واقع ایک اور ایسے بلیو ہول امبرجیک تک رسائی حاصل کی تھی، جو پانی کی سطح سے 113 میٹر نیچے تھا اور اس کی گہرائی 237 فٹ تھی۔

امبر جیک ہول کی جانچ پڑتال کے دوران سائنسدانوں نے پانی کے 17 اور چٹانوں کے 4 نمونے اکٹھے کیے جبکہ وہاں 2 مردہ اسمال ٹوتھ سا فش کو بھی دریافت کیا۔

یہ مچھلیاں سوراک کے نچلے حصے سے ملی تھیں جہاں پانی میں آکسیجن کی شرح کم تھی اور اسی سے انہیں وہاں زندہ رہنے میں مدد ملی تھی۔

ایملی ہال کے مطابق 'متعدد افراد اس کا موازنہ خلا میں جانے سے کرتے ہیں، ہمیں معلوم نہیں کہ ہمیں وہاں کیا کچھ ملے گا مگر ہم اپنی کھوج جاری رکھیں گے'۔

موٹ میرین لیبارٹری کے سنیئر سائنسدان جم کلٹر نے بتایا کہ زیرآب ایسے سوراخ پوری دنیا میں موجود ہیں مگر ان کی تعداد کا تعین نہیں ہوسکا، عام طور پر یہ دنیا کے ایسے حصوں میں پائے جاتے ہیں جہاں چونے کے پتھر کی ایک قسم Karst پائی جاتی ہے۔

کچھ بلیو ہولز سمندر کی گہرائی میں اتنے نیچے واقع ہیں کہ ان کی دریافت غوطہ خوروں اور ماہی گیروں کی معلومات سے ہوئی۔

یہ بلیو ہولز منفرد کیوں ہیں؟

یہ سوراخ ایسے ماحولیاتی تنوع کے لیے ہاٹ اسپاٹس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو بحری حیات جیسے شارکس سے لے کر سمندری کچھوؤں، مونگوں اور دیگر کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔

جم کٹلر کے الفاظ میں یہ سمندر کی بنجر سطح میں کسی نخلستان کی طرح ہوتے ہیں، تاہم ان کی تہہ میں آکسیجن کی سطح نمایاں حد تک کم ہوتی ہے اور وہ بحری حیات کے لیے غیردوستانہ ماحول ہوتا ہے۔

ایملی ہال نے بتایا 'اب تک جو ایک حیرت انگیز چیز ہم نے ان سوراخوں کے بارے میں جانی ہے وہ بہت زیادہ مقدار میں نیوٹریشنز ہیں۔

ان بلیو ہولز کی کاربونیٹ کیمرسٹری بھی منفرد ہے اور اس ے بارے میں جتنا علم ہورہا ہے، اس سے سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس سے انہیں موسمیاتی تبدیلیوں سے منسلک عالمی کاربن سائیکل اور سمندری تیزابیت کے بارے میں زیادہ جاننے کا موقع ملے گا۔

سائنسدان ان بلیو ہولز اور زمینی سوتوں میں پائے جانے والے پانی کے درمیان تعلق کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں۔

امبرجیک ہول سے لیے گئے پانی کے نمونوں کے تجزیے سے دریافت ہوا تھا کہ ان میں ریڈیم اور ریڈون آئسوٹوپ موجود ہے جو زمینی سوتوں میں موجود پانی میں پائے جاتے ہین۔

حیاتیاتی نقطہ نظر سے بھی واضح ہے کہ بلیو ہولز میں متعدد غیرمعمولی چیزیں ہوتی ہیں۔

گرین بنانا کی جانچ پڑتال ایک بڑا چیلنج

سمندر میں بہت زیادہ گہرائی میں جانا کسی چیلنج سے کم نہیں۔

جم کلٹر کے مطابق 'جب آپ زیادہ گہرائی میں جاتے ہیں اور زیادہ دیر تک وہاں رہتے ہیں تو مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، کیونکہ جسمانی ٹشوز میں زیادہ مقدار میں نائٹروجن اکٹھی ہونے لگتی ہے، جبکہ واپس اوپر آنے کے لیے بہت سست رفتاری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے تاکہ نائٹروجن خون سے بلبلے کی شکل میں نکلنے نہ لگے۔

نائتروجن جسم پر مسکن ادویات جیسا اثر کرتی ہے جبکہ غوطہ خور کی بینائی پر بھی اثرانداز ہوتی ہے، جبکہ ایک اور خدشہ خون میں آکیسجن کی سطح میں کمی کا ہوتا ہے جو زہریلے اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔

امبرجیک ہول کی کھوج کے دوران جم کلٹر 300 فٹ گہرائی میں 7 منٹ میں پہنچے مگر واپس سطح پر آنے کا عمل لگ بھگ ایک گھنٹے میں مکمل ہوا، تو گرین بنانا کی تہہ تک جانے والے غوطہ خوروں کو واپس سطح پر آنے کے لیے لگ بھگ 2 گھنٹے چاہیے ہوں گے۔

تاہم بلیو ہولز کی کھوج اپنی طرز کا منفرد سائنسی چیلنج ہے اور ایملی ہال کے مطابق ہم نہیں جانتے کہ ہم وہاں کیا دریافت کریں گے۔

اس طرح کی غیر تعین شدہ نتائج پر مبنی تحقیق موجودہ عہد میں نایاب سمجھی جاتی ہے کیونکہ اکثر شعبوں میں لوگوں کو مخصوص نتائج کی توقع ہوتے ہیں تاہم بلیو ہولز میں کیا ملتا ہے کسی کو کچھ پا نہیں۔

جم کلٹر کے مطابق سائنس کی بنیاد چھوٹے قدم بڑھانے سے بنتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں