سندھ ہائی کورٹ، ماتحت عدالتوں میں ججز کے تقرر کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست

اپ ڈیٹ 15 اگست 2020
درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور رجسٹرار اور صوبائی وزارت قانون کے علاوہ وفاقی حکومت کو نامزد کیا گیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور رجسٹرار اور صوبائی وزارت قانون کے علاوہ وفاقی حکومت کو نامزد کیا گیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پٹیشن میں 2017 کے بعد سے سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی اور سول اور انتظامی ضلعی ججز کی ماتحت عدالتوں میں تعیناتی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

غلام سرور قریشی کی جانب سے اپنے وکیل خواجہ شمس الاسلام کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں عدالت عظمی سے استدعا کی گئی ہے کہ 2017 کے بعد سے اب تک سندھ ہائی کورٹ میں ججز اور دیگر عملے کے تقرر کے ساتھ ساتھ ماتحت عدالتوں میں سول اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کے تقرر کو غیر قانونی، بدنیتی پر مبنی، اختیارات سے باہر، غیر آئینی اور کالعدم جس کا کوئی قانونی اثر نہ ہو، قرار دیا جائے۔

درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور رجسٹرار اور صوبائی وزارت قانون کے علاوہ وفاقی حکومت کو نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ 2017 کے بعد سے عدالت عالیہ کے سینئر ججز کے ساتھ ساتھ سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا حکم دیں تاکہ ہائی کورٹ اور سندھ کی ضلعی عدلیہ میں تعیناتیوں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی جاسکے۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے 3 ججز کا عدالت عظمیٰ میں تقرر چیلنج کردیا

درخواست گزار کا ماننا ہے کہ تمام تعیناتیاں ایسی ملازمتوں کے لیے لاگو قوانین اور ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی میں کی گئیں۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کو سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے ساتھ ساتھ وزارت قانون سندھ کو بھی ہائی کورٹ اور نچلی عدلیہ میں ہونے والی تعیناتیوں کا 2017 سے مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دینا چاہئے۔

اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کو ہائی کورٹ کے رجسٹرار اور چیف جسٹس اور صوبائی وزارت قانون کو ہدایت دینی چاہیے کہ 2017 کے بعد سے ہائی کورٹ اور نچلی عدلیہ میں کی جانے والی تعیناتیوں کو ڈی نوٹیفائی کیا جائے اور مدعا علیہان کے خلاف براہ راست تحقیقات کا بھی حکم دینا چاہیے کیونکہ سندھ کے تمام ججز کی تعیناتیوں سے متعلقہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔

عدالت عظمی سے استدعا کی گئی کہ وہ درخواست پر فیصلہ آنے تک فریقین کو خلاف سندھ ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ ضلعی عدالتوں میں مزید تقرر سے روکنے کا حکم جاری کرے۔

درخواست میں 26 ستمبر 2016 کے سپریم کورٹ کے فیصلے یاد دلائی گئی جس میں 2011 سے لے کر 2012 کے آخر تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں تمام بھرتیاں، تقرر، ڈیپوٹیشن اور دوبارہ تعیناتیوں کو ڈی نوٹی فائی کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی ڈی سی برطرفیاں: عدالت کا وزیراعظم کے معاون خصوصی کے اختیارات پر سوال

مذکورہ اعلامیے میں عدالت عظمی کے اس وقت کے جج جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا تھا کہ چیف جسٹس اور/یا ہائی کورٹ کی انتظامیہ کمیٹی نے اسٹیبلشمنٹ (ہائی کورٹ) میں تعیناتیوں کو آئین کے آرٹیکل 208 کے تحت وضع کردہ قواعد میں دیے گئے مینڈیٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے کیا تھا۔

یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر ایڈووکیٹ چوہدری محمد اکرم کی طرف سے ایڈووکیٹ عارف چوہدری کی جانب سے دائر درخواست پر سنایا گیا تھا۔

درخواست میں عدالت عظمی سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی جانے والی متعدد تعیناتیوں کا جوڈیشل نوٹس لے جس میں کم از کم دو ممبران ججز کے قریبی رشتے دار تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں