پاکستان اور انگلینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں بارش کے باعث کم ہی کھیل ممکن ہوسکا اور یوں یہ میچ ڈرا پر اختتام پذیر ہوا، جس کے سبب قومی ٹیم کے ہاتھ سے سیریز جیتنے کا موقع بھی نکل گیا۔

اگرچہ تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ جیت کر قومی ٹیم سیریز برابر ضرور کرسکتی ہے لیکن پاکستان کے 2 سینئر بیٹسمینوں اظہر علی اور اسد شفیق کی فارم کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی فتح کی کوئی امید رکھنا کچھ زیادہ اچھا معلوم نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیے: وہ غلطیاں جن کی وجہ سے انگلینڈ نے پاکستان کے ہاتھوں سے فتح چھین لی

اظہر علی اس دورے پر 3 اننگز میں 40 اور اسد شفیق 41 رنز بنا پائے ہیں اور کرکٹ ماہرین اور تماشائیوں کی جانب سے دونوں کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

اظہر علی نے 10 سال قبل انگلینڈ ہی میں آسٹریلیا کے خلاف اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا تھا جبکہ اسد شفیق اس کے چند ماہ بعد متحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیم کا حصہ بنے تھے۔

مصباح الحق کو اسی سیریز میں کپتانی ملی تھی اور ساتھ ہی یونس خان کی ٹیم میں واپسی بھی ہوئی تھی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف اسی سیریز سے ان چاروں نے مل کر پاکستانی مڈل آرڈر کو اگلے 7 سال تک کے لیے زبردست سہارا فراہم کیا۔

یہ 2012ء کی بات ہے جب انگلینڈ کے خلاف انتہائی مشکل حالات میں اظہر علی نے 157 رنز کی بہترین اننگ کھیلی اور یونس خان کے ساتھ 216 رنز کی شراکت داری قائم کی۔

پھر 2014ء میں شارجہ کے میدان پر سری لنکا کے خلاف کھیل کے آخری دن ایک مشکل ہدف کے تعاقب میں سرفراز احمد اور مصباح الحق کی تیز اننگز ضرور اہمیت کی حامل تھی مگر اننگ کو سنبھالنے والی سنچری اظہر علی نے بنائی تھی۔ اسی سال آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی اظہر کے نام رہا۔

2015ء میں اظہر علی نے اپنی پہلی ڈبل سنچری بنگلہ دیش کے خلاف بنائی لیکن 2016ء کا سال اظہر کے کیریئر کا کامیاب ترین سال ثابت ہوا۔ اظہر نے 2016ء میں سنچریاں تو 3 ہی بنائیں لیکن یہ سب یادگار ثابت ہوئی۔ ان میں سے ایک سنچری انگلینڈ کے خلاف ایجبسٹن کے میدان پر تھی۔ پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف اظہر علی نے اپنے کیرئیر کی واحد ٹرپل سنچری دبئی میں بنائی اور پھر آسٹریلیا کے خلاف میلبورن میں ڈبل سنچری بھی بنا ڈالی۔

اظہرعلی پاکستان کی جانب سے ٹرپل سنچری بنانے والے چوتھے بلے باز ہیں—فوٹو: اے ایف پی
اظہرعلی پاکستان کی جانب سے ٹرپل سنچری بنانے والے چوتھے بلے باز ہیں—فوٹو: اے ایف پی

ویسٹ انڈیز کا دورہ جو مصباح الحق اور یونس خان کے کیریئر کا آخری دورہ بھی تھا، وہاں بھی اظہر علی نے 2 سنچریاں بناکر اعلان کردیا کہ اب وہ ان 2 سینئرز کی جگہ لینے کے لیے بالکل تیار ہیں۔

اس دورے کے اختتام تک اظہر علی نے 14 سنچریوں کی مدد سے 47 کی اوسط سے 4 ہزار 978 رنز بنا لیے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اظہر علی کی کارکردگی بہتر بھی ہو رہی تھی اور اس میں تسلسل بھی آ رہا تھا اور ان کی اس کارکردگی کو دیکھ کو مصباح اور یونس کی رخصتی کا غم کسی حد تک کم ہوگیا تھا۔

اسد شفیق تکنیکی اعتبار سے اظہر سے کہیں بہتر بیٹسمین ہیں لیکن شاید اسکور کی وہ بھوک اسد شفیق میں موجود نہیں جو ایک بیٹسمین سے تسلسل کے ساتھ اسکور کرواتی ہے۔

کریز پر پہلی چند گیندیں کھیلتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے اسد شفیق کافی دیر سے کریز پر موجود ہیں لیکن اچانک ہی کسی عام سی گیند پر وکٹ دے بیٹھنا اسد شفیق کی کمزوری رہی۔

اگرچہ اسد شفیق کے حصے میں اظہر علی جیسی بڑی سنچریاں تو نہیں آسکیں لیکن اسد کے زیادہ تر اسکور نہایت مشکل حالات میں سامنے آئے۔ اسد شفیق کو زیادہ تر مواقع نمبر 6 پر ملے اور اسد نے بھی اس پوزیشن کو اپنا بنا لیا۔

ٹیل اینڈرز کے ساتھ بیٹنگ کرنا کسی بھی بیٹسمین کے لیے کبھی بھی آسان نہیں ہوتا لیکن اسد شفیق نے اس مشکل کام کو بھی آسان بنا لیا تھا۔ اسد شفیق کی بیٹنگ اوسط کبھی بھی 40 سے نہ بڑھ سکی لیکن اسد ہمیشہ مشکل حالات میں اسکور بناتے رہے۔

مزید پڑھیے: اسد شفیق: پاکستان کا خاموش نگہبان

اپنے کیریئر میں انہوں نے اب تک 12 سنچریاں اسکور کی ہیں جن میں کچھ بہت یادگار ثابت ہوئیں، جیسے 2012ء اور 2015ء میں سری لنکا کے خلاف اس کے اپنے ہی میدانوں پر بنائی جانے والی سنچریاں ہوں یا جنوبی افریقہ کے خلاف 2013ء میں کیپ ٹاؤن اور دبئی میں یادگار اننگز کا ذکر ہو، اسی طرح نیوزی لینڈ کے خلاف 2014ء میں شارجہ کے میدان پر اور آسٹریلیا کے خلاف برسبین میں 490 رنز کے تعاقب میں بنائی گئی شاندار اور یادگار سنچری کا معاملہ ہو، جس دوران ایک معجزہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اگرچہ اسد شفیق کی زیادہ تر سنچریاں پاکستان کے لیے فتح کا پیغام تو نہ لاسکیں لیکن اس میں اسد شفیق سے زیادہ ان کے ساتھیوں کا قصور رہا۔

اسد شفیق کی بیٹنگ اوسط کبھی بھی 40 سے نہ بڑھ سکی لیکن اسد ہمیشہ مشکل حالات میں اسکور بناتے رہے— فوٹو: اے ایف پی
اسد شفیق کی بیٹنگ اوسط کبھی بھی 40 سے نہ بڑھ سکی لیکن اسد ہمیشہ مشکل حالات میں اسکور بناتے رہے— فوٹو: اے ایف پی

2017ء میں ویسٹ انڈیز کے دورے کے اختتام پر اظہر علی بہترین فارم میں تھے جبکہ اسد شفیق بھی عمدہ کھیل پیش کر رہے تھے۔ اب امید یہی تھی کہ مڈل آرڈر میں بیٹنگ کا بوجھ یہ دونوں سنبھال لیں گے کیونکہ بابر اعظم اور حارث سہیل ابھی ٹیسٹ فارمیٹ میں نئے تھے، لیکن سری لنکا کے خلاف سیریز کے پہلے ہی ٹیسٹ میں جب پاکستان کو صرف 136 رنز کا ہدف ملا تو اظہر صفر اور اسد شفیق 20 رنز بناکر چلتے بنے اور یوں قومی ٹیم کو 21 رنز سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

ان دونوں کھلاڑیوں نے اس سیریز میں اسکور ضرور بنایا بلکہ اسد نے تو سنچری بھی بنائی تھی لیکن ضرورت کے وقت یہ دونوں ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرسکے اور پاکستان کو دونوں ٹیسٹ میں ایک کمزور سری لنکن ٹیم سے شکست ہوگئی۔

اس کے بعد آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز ہو یا ہوم سیزن میں آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز یا جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے دورے، دونوں سینئر بیٹسمین پاکستانی شائقین کو مایوس ہی کرتے رہے۔

اس دوران اسد شفیق کے بارے میں یہ تاثر مزید گہرا ہوتا رہا کہ جب بھی ان کے ڈراپ ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے تو وہ ایک بڑی اننگ کھیل کر اپنے کیریئر کو طوالت دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن اظہر علی تو اس دوران ایسا بھی نہیں کرپائے۔

2017ء میں سری لنکا کے خلاف کھیلی جانے والی سیریز سے 2020ء میں انگلینڈ کے خلاف سیریز کے دوسرے ٹیسٹ تک کھیلی جانے والی 10 سیریز میں سے اظہر علی صرف 3 سیریز میں 40 سے زائد کی اوسط سے کھیل پائے ہیں اور اس دوران ان کی اوسط 47 سے کم ہوکر 42 ہو چکی ہے۔ 19 ٹیسٹ میچوں میں دونوں نے صرف 2، 2 سنچریاں ہی بنائی ہیں۔ اس دوران اظہر علی کی بیٹنگ اوسط 27 جبکہ اسد شفیق کی قدرے بہتر یعنی 37 رہی ہے۔

اظہر علی کو جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں شدید ناکامی کے باوجود ٹیسٹ ٹیم کا کپتان برقرار رکھا گیا، جس پر کافی سوال بھی اٹھے۔ یہاں ایک اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ اگر سرفراز کو کمتر کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم اور کپتانی سے فارغ کردیا گیا تو کیا وجہ تھی کہ سرفراز کی جگہ بننے والے کپتان اظہر علی کو مسلسل ناکامی کے باوجود یہ عہدہ دیا ہوا ہے؟

سچ پوچھیے تو ایسا کرنا شاید اظہر علی کے ساتھ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ خراب فارم کی وجہ سے کپتانی کی ذمہ داری ان کے لیے اضافی بوجھ ثابت ہورہی ہے۔ بطور کپتان جو اظہر علی نے آخری 6 میچ کھیلے ہیں ان میں وہ صرف ایک مرتبہ ہی اچھا اسکور بنا سکے ہیں۔

انگلینڈ کے خلاف جاری سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں پہلی بار ان پر حالات کا دباؤ پڑا اور وہ اس کا سامنا کرنے میں بظاہر ناکام رہے ہیں۔ ایک بڑی پارٹنرشپ کے دوران باؤلرز کی تبدیلی اور فیلڈرز کے تعین میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا جس سے لگے کہ کپتان کچھ نیا سوچ رہا ہے۔ بظاہر کوچز کی طرف سے بھی کوئی خاص حکمتِ عملی کپتان کو مہیا نہیں کی گئی۔

اس لیے اگر سیریز میں دونوں سینئر بیٹسمینوں کی ناکامی اور کپتانی ایسے ہی چلتی رہی تو پاکستان کے لیے سیریز برابر کرنا ناممکن جیسا ہی نظر آرہا ہے۔

سیریز برابر کرنے کے لیے دونوں بیٹسمینوں کا ذمہ داری لینا ناگزیر ہے— فوٹو: اے ایف پی
سیریز برابر کرنے کے لیے دونوں بیٹسمینوں کا ذمہ داری لینا ناگزیر ہے— فوٹو: اے ایف پی

اظہر علی اور اسد شفیق دونوں اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اگر ایک بار ٹیم سے باہر کردیے گئے تو ان کی واپسی بہت مشکل ہوجائے گی۔ نہ تو ان دونوں میں مصباح الحق جیسا حوصلہ ہے اور نہ ہی یونس خان جیسی لگن جو ان کی واپسی کو آسان بناسکے۔

ان دونوں کی مسلسل ناکامیوں کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے ان کو مصباح اور یونس کے سائے میں رہنے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ اگرچہ اب مصباح اور یونس کریز پر تو ان دونوں کا ساتھ نہیں دے سکتے لیکن ڈریسنگ روم میں دونوں کی موجودگی کا اظہر اور اسد کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہے۔

پاکستانی ٹیم سیریز میں برابری کے لیے اب تیسرے ٹیسٹ میں بابر اعظم کے ساتھ ساتھ اپنے دو سینئر بیٹسمینوں کی جانب بھی دیکھے گی۔ اگر اظہر اور اسد اس بار بھی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کے لیے ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Bilal Gulzar Aug 19, 2020 09:45am
Interesting News
Faisal Aug 19, 2020 11:45am
In today's cricketing world, to avg less than 40 and early 40s indicate below average batsmen. I think already suficient opportunities have bene given toboth the players and they should be dropped. I dont understand why Imamaul Haq is not being played in place of Asad. When Paksitan needed these two players to score and cross the finish line, especially against New Zealand, South Africa and Australia both of these batsmen were found wanting. With 75+ test matches enough chances have been given and time to give new batsmen such as Haider, Imam and others a longer tenure in the middle to prove their mettle.