کراچی کے مسئلے پر ایم کیو ایم پاکستان کا آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان

اپ ڈیٹ 18 اگست 2020
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹو: اسکرین شاٹ
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹو: اسکرین شاٹ

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے کراچی کے مسائل میں حل میں ناکامی پر حکومت سندھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کراچی میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی ماہ سے جب سے کورونا کا مسئلہ شروع ہوا ہے تو کیونکہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زائد ہے تو اس لیے کراچی میں یہ مسئلہ زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کی 2 سالہ کارکردگی کو 'تباہ کن' قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ جب سے یہ وبا امڈ آئی ہے اس وقت سے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان ایک بحث شروع ہو چکی ہے، ایک قدرتی آفت آئی ہے اور پہلے دن سے پوائنٹ اسکورنگ شروع ہو چکی ہے، پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس ہو رہی ہیں، کبھی صوبے کی طرف سے دن میں دو دو پریس کانفرنس ہو رہی ہیں تو وفاق کی طرف سے اس کا جواب دیا جا رہا ہے یعنی کراچی کا مسئلہ حل کرنا دونوں کے لیے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی ذاتی انا اور ضد کا مسئلہ بن چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں متحدہ قومی موومنٹ نے صوبائی حکومت کے بھی ان اقدامات کی حمایت کی جس میں لاک ڈاؤن تھا اور وفاقی حکومت کے بھی اقدام کی حمایت کی جس میں انہوں نے پالیسی کی سطح پر کورونا کے متاثرین کے لیے پالیسی دی اور سب سے بڑی بات کہ انہوں نے تاجر برادری اور حکومت سندھ کے درمیان بھی پل کا کردار ادا کیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما نے کہا کہ ہم تو گزشتہ چار سال سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ کراچی کے مسئلے کا حل کراچی والوں کو پتا ہے، نہ یا مسئلہ اسلام آباد سے بیٹھ کر حل ہو سکتا ہے نہ یہ مسئلہ لاڑکانہ سے کنٹرول ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘ایم کیو ایم کو بلاول کی پیشکش سے لگتا ہے سندھ حکومت خطرے میں ہے’

ان کا کہنا تھا کہ مسلسل کراچی پر ایک سیاست کی جا رہی ہے، یہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی تختہ مشق بن گئی ہے، جب سب نے کراچی کے معاملے پر احتجاج اور شور کیا تو خدا خدا کر کے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور کمیٹی کے مینڈیٹ طے ہونے تھے اور پرسوں تک سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کو کراچی کے مسئلے کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی ہدایت کی لیکن نجانے 12 گھنٹے میں ایسا کیا ہوا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے صفائی کو سندھ کا مسئلہ بنا لیا، جو پریس کانفرنس کل کی گئی ہے اس میں کراچی کی محبت کہیں نہیں ہے، کراچی میں آپ کی جو ناکامی ہے اس کا ذکر کہیں نہیں ہے۔

انہوں نے حکومت سندھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو کراچی کے بھرے ہوئے نالوں سے پانی نکالنا ہو تو آپ کو فوج کے پمپ چاہیے ہوتے ہیں، گاڑیاں اور افراد ڈوب جائیں تو بحریہ کے غوطہ خور چاہیے ہوتے ہیں، آپ کی فصلوں پر سنڈی حملہ کر دے تو ایئرفورس سے طیارے چاہیے ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی اس شہر کا مستقل حل نہیں ہے اور ہم چار سال سے کہہ رہے ہیں کہ یہ لنگڑا لولا بلدیاتی نظام جان بوجھ کر اپنی کرپشن چھپانے اور کراچی کو تباہ کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم اور ہم ایک جماعت نہیں، انہیں اختلاف کا پورا حق ہے، فواد چوہدری

خواجہ اظہار الحسن نے وزیر اعلیٰ سندھ کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں ایگزیکٹو اتھارٹی حکومت کی ہے لیکن وہ ایگزیکٹو اتھارٹی ہے کہاں، کچرے کے سربراہ آپ، لیکن آپ سے وہ نہیں اٹھ رہا، پانی پہنچانے کی ذمے داری آئینی قانونی طور پر آپ کی ہے لیکن کراچی سسک رہا ہے، سیوریج کے مسائل آپ کے بلدیات کے وزیر کے براہ راست زیر اثر ہیں لیکن 70 فیصد کراچی میں گٹر ابل رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ تو خود کراچی کو سندھ سے علیحدہ کر رہے ہیں، آپ کی پالیسی کراچی کو سندھ سے علیحدہ کر رہی ہے، کیا کسی وزیر اعلیٰ کو یہ کہنا چاہیے کہ ہم نے کراچی کو یہ دیا، وہ دیا؟ اور کراچی سے لینے کا سوال کر لو تو فوراً سندھ خطرے میں پڑ جاتا ہے، کراچی کو اختیار اور کراچی کو وسائل دینے کی بات کرو تو پورا صوبہ خطرے میں آجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کو 'بنانا ریپبلک' بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور پھر کراچی والوں کا مشورہ نہیں چاہیے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما نے مزید کہا کہ یہ کہتے ہیں ہم نے جہانگیر روڈ بنائی لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے جو پارک بنایا اور جس پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، اس کا کوئی حساب دینے کو تیار نہیں، کراچی میں یونیورسٹی روڈ بنائی تو تقریر میں کہا کہ 88 کروڑ خرچ ہوں گے اور بجٹ میں کہا کہ ڈیڑھ ارب روپے میں بنی، تو ہمیں بھی پتا ہے کہ آپ کیوں بنا رہے ہیں کیونکہ 80، 80 کروڑ روپے بن رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول کا ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا مشورہ

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما نے کہا کہ شاہراہ فیصل آپ نے بنا دی لیکن مراد علی شاہ صاحب آئین کا آرٹیکل 184(3) ہمیں بھی پتا ہے، آپ کے اچھے بھی بناتے شاہراہ فیصل، آپ سر کے بل بھی کھڑے ہوتے ناں، تو بھی بناتے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سندھ کے دانشوروں سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کل وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ پینے کے پانی کا مسئلہ ابھی چل رہا ہے، میرے پاس پینے کا پانی نہیں ہے، 1200 ایم جی ڈی پانی مجھے چاہیے، مجھے 500 ایم جی ڈی نہیں مل رہا اور 1200 ایم جی ڈی بھی اس وقت کے اعدادوشمار ہیں جب کراچی کی آبادی 2 کروڑ تھی، آج تو کراچی کی آبادی چیف جسٹس صاحب کہہ رہے ہیں کہ تین کروڑ ہے، 10 سال پہلے کا کوٹا مجھے آج بھی پورا نہیں مل رہا، سندھ کے نوجوانوں اب بتاؤ کہ سندھ پر حملہ کیسے ہے؟

انہوں نے کہا کہ قمبر شہدادکوٹ کا پانی نہیں مانگ رہا، میں میرپور خاص کا پانی نہیں مانگ رہا، میں لاڑکانہ سے پانی نہیں مانگ رہا، میرے شہر کے پینے کے پانی کے لیے جب میں اس حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتا ہوں تو یہ سندھ کیسے خطرے میں پڑ جاتا ہے؟ جب میں کہتا ہوں کہ کے-فور کے 11 ارب روپے وفاق کے ضائع کیے گئے ہیں تو سندھ کیوں خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک نے کراچی کے شہریوں کا جینا اجیرن کردیا ہے، رکن ایم کیو ایم پاکستان

خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ جب کراچی نے اپنے وسائل اور حق کی بات کی ہے، اس پیپلز پارٹی کے نوجوانوں کو سندھ کے نام پر گمراہ کیا ہے، جب جب پیپلز پارٹی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بات ہوتی ہے تو وہ سندھ کے دانشوروں اور نوجوانوں کو سندھ کے نام پر جذباتی کر کے گمراہ کرتے ہیں، سندھ اور پیپلز پارٹی دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں دو لاکھ نوکریاں تقسیم کی گئیں، کیا میرا حق نہیں ہے میں اپنے آٹھویں پاس، میٹرک پاس، انٹر پاس نوجوان کے لیے آواز اٹھاؤں کہ میری نوکری جعلی ڈومیسائل پر کیوں کھا لی گئی لیکن کیا سندھ کے نوجوان کو یہ نہیں پتا کہ پانچ لاکھ نوکریاں اندرون سندھ میں بھی دی گئی ہیں اور اگر وہ بیچی گئی ہیں تو اس کا حساب کون لے گا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما نے کہا کہ سندھ کو خطرہ سندھ کے حکمرانوں سے ہے، سندھ کو خطرہ وزیروں کی بڑھتی ہوئی جائیدادوں سے ہے اور سندھ کو خطرہ سندھ کے امیر ترین ہوتے ہوئے وزرا سے ہے، سندھ کو خطرہ کراچی میں بسنے والے کسی مہاجر کسی سندھی سے نہیں ہے بلکہ سندھ کو خطرہ سندھ کی پالیسیوں سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ایم کیو ایم کی دھڑے بندی سے کس کو فائدہ ہے؟

انہوں نے کہا کہ اس شہر کا حل اگر اس شہر والوں سے نہیں پوچھیں گے تو نہیں نکلے گا، اس شہر کا حل اس شہر کے بیٹوں، کاروباری لوگوں، سیاسی جماعتوں کے پاس ہے تو اس سلسلے میں جمہوری طریقے سے متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم فوری طور پر ایک ہنگامی آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کر رہے ہیں جو کراچی کانفرنس کے نام سے منعقد ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کانفرنس کے ذریعے کراچی کی مقامی سیاسی جماعتیں، کراچی کے مقامی کاروباری حضرات، دانشور، علما، وکلا اور اسکالرز بیٹھ کر کراچی کا مقدمہ حکومتوں کے سامنے پیش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم صوبے کی بات کرتی ہے تو ایم کیو ایم پورے ملک میں صوبے بنانے کی بات کرتی ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے پورے پاکستان میں صوبے بننے چاہیئیں۔

اس موقع پر انہوں نے 18ویں ترمیم کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبے مضبوط ہوں گے، ہمیں کیا پتا تھا کہ چند افراد مضبوط ہو جائیں گے، یہ 18ویں ترمیم میں تو ہمارے اور اس شہر کے ساتھ دھوکا ہو گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں