کابل میں مارٹر گولے کا حملہ، بچوں سمیت 10 افراد زخمی

اپ ڈیٹ 18 اگست 2020
افغانستان کے عوام آج اپنا یوم آزادی منا رہے ہیں — فوٹو: اے پی
افغانستان کے عوام آج اپنا یوم آزادی منا رہے ہیں — فوٹو: اے پی

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مختلف علاقوں میں مارٹر گولے آگرے جس سے بچوں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے۔

خیال رہے کہ افغانستان کے عوام حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال میں آج اپنا یوم آزادی منا رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے پی' کے مطابق کسی دہشت گرد گروپ نے تاحال حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرائیں نے کہا کہ کابل کے شمال اور مشرقی حصے میں دو گاڑیوں سے 14 مارٹر گولے فائر کیے گئے جبکہ زخمی ہونے والوں میں 4 بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'زیادہ تر مارٹر گولے رہائشی مکانات پر گرے جس کی تحقیقات جاری ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بین الافغان مذاکرات کے لیے باضابطہ ایجنڈا طے نہیں کیا گیا

عینی شاہدین نے کہا کہ ایک مارٹر گولہ وزیر اکبر خان کے اطراف میں گرا جہاں سفارتکار اور سینئر سرکاری عہدیدار رہائش پذیر ہیں۔

یہ حملہ حکومت کے اس بیان کے ایک روز بعد کیا گیا کہ وہ طالبان کے بقیہ 320 قیدیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کرے گی جبکہ وہ مزید افغان فوجیوں کو رہا نہیں کر دیتے۔

افغان حکومت کا یہ فیصلہ روایتی 'لویا جرگے' کے خلاف ہے اور اس سے بین الافغان مذاکرات میں مزید تاخیر کا خدشہ ہے۔

مختلف مقدمات میں سزا یافتہ 400 افراد میں سے 80 طالبان قیدیوں کی پہلے مرحلے میں رہائی نے جنگ سے متاثرہ ملک میں پائیدار امن کے لیے مذاکرات کے امکانات کو روشن کردیا تھا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کا کہنا تھا کہ وہ کابل میں مارٹر حملے سے لاعلم ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کی طاقتور مذاکراتی ٹیم تشکیل، پاکستان کے قریبی رہنما خان متقی ٹیم سے باہر

تاہم افغانستان میں کارروائیں کرنے والے 'داعش' سے منسلک دہشت گرد گروپ ماضی میں قومی تقریبات میں راکٹ حملے کے ذریعے خلل ڈال چکا ہے۔

خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کے تحت افغان حکومت کو طالبان کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو آزاد کرنے کے بدلے میں 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔

ان میں سے تقریبا 4 ہزار 600 کو پہلے ہی رہا کیا جاچکا ہے تاہم کابل باقی 400 افراد کو رہا کرنے سے کترا رہا تھا جنہیں خطرناک قرار دیا گیا تھا۔

بعد ازاں یہ معاملہ لویا جرگہ کے سامنے اٹھایا گیا جس نے ان کی رہائی کی توثیق کی جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے انہیں آزاد کرنے کے لیے صدارتی فرمان جاری کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں