حیات بلوچ قتل کیس: والد نے شناختی پریڈ میں 'قاتل' کو پہچان لیا

اپ ڈیٹ 21 اگست 2020
متاثرہ لڑکے کے والد نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر ایف سی اہلکار کو اس کے سامنے لایا گیا تو وہ اسے پہچان سکتے ہیں۔ اے ایف پی:فائل فوٹو
متاثرہ لڑکے کے والد نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر ایف سی اہلکار کو اس کے سامنے لایا گیا تو وہ اسے پہچان سکتے ہیں۔ اے ایف پی:فائل فوٹو

کوئٹہ/اسلام آباد: فرنٹیئر کور (ایف سی) کے ایک سپاہی کے ہاتھوں مبینہ طور پر قتل ہونے والے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کے والد نے تربت ڈسٹرکٹ جیل میں شناختی پریڈ کے دوران ملزم کی نشاندہی کردی۔

مقتول کے والد نے پہلے کہا تھا کہ اگر ایف سی کے اہلکار کو ان کے سامنے لایا گیا تو وہ اسے پہچان سکتے ہیں۔

حیات بلوچ کو بلوچستان میں تربت کے علاقے ابصار میں ہونے والے دھماکے کے بعد کھجوروں کے باغ سے پکڑا گیا تھا اور ایف سی اہلکار نے اسے 8 گولیاں ماری تھی۔

ملزم شاہد اللہ پہلے ہی پولیس کی تحویل میں ہے اور مقتول کے بڑے بھائی محمد مراد بلوچ کی شکایت پر اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

کیچ کے ضلعی پولیس افسر نجیب اللہ پنڈرانی نے بتایا کہ شناختی پریڈ جیل میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی نگرانی میں کی گئی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں ایف سی اہلکار کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت ناقابل قبول ہے، شیریں مزاری

انہوں نے بتایا کہ ملزم کے علاوہ دیگر قیدیوں کو بھی ساتھ لایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حیات بلوچ کے والد نے شناختی پریڈ کے دوران تین مرتبہ مشتبہ شخص کی شناخت کی'۔

دریں اثنا ایف سی بلوچستان نے واقعے سے متعلق ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ 13 اگست کو تربت میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں دہشت گردوں نے ابصار کے علاقے میں ایک ایف سی قافلے کو آئی ای ڈی (دیسی ساختہ دھماکا خیز آلے) سے نشانہ بنایا اور اس کے نتیجے میں ایک نان کمیشنڈ افسر سمیت تین اہلکار زخمی ہوگئے۔

بیان کے مطابق واقعے کے بعد علاقے میں موجود حیات بلوچ سمیت کچھ مقامی لوگوں سے واقعے کے بارے میں پوچھ گچھ کی جارہی تھی کہ دوران تفتیش ایف سی کے سپاہی نائیک شاہد اللہ نے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں حیات بلوچ زخمی ہوگیا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ اس موقع پر موجود ایف سی اہلکاروں نے مشتبہ شخص پر قابو پالیا اور اسے فوری طور پر غیر مسلح کردیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ واقعہ اور ابتدائی تفتیش کے بعد ایف سی جنوب کے انسپکٹر جنرل نے ملزم کو پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا اور ایف سی نے واقعے میں اس کے نامزد ہونے سے قبل مشتبہ شخص کو دو گھنٹوں میں پولیس کے حوالے کردیا تھا جس پر علاقے کے معزز افراد نے ایف سی کے اقدامات کا خیرمقدم کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ یہ ایک فرد کا جرم تھا لیکن ایک ادارے کی حیثیت سے ایف سی بلوچستان نے اندوہناک واقعے اور دہشت گردوں کی جانب سے آئی ای ڈی دھماکے کی شدید مذمت کی تھی اور متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ 'ہم نے اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزتوں کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے اور ایف سی بلوچستان بلا تفریق اپنے فرائض سرانجام دیتی رہے گی، آئی ای ڈی دھماکے کے ذمہ داروں اور حیات بلوچ کے قاتل کو ان کے جرائم کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑے گا، مستقبل میں ایسے واقعات نہیں ہونے دیں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: تربت میں طالبعلم کے قتل کے الزام میں ایف سی اہلکار گرفتار

ادھر ایف سی جنوبی کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل سرفراز علی نے تربت میں حیات بلوچ کے گھر کا دورہ کیا اور اس کے والد اور اہل خانہ کے دیگر افراد سے تعزیت کی اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

انہوں نے اہلخانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایک ادارے کی حیثیت سے ایف سی غمزدہ خاندان کے ساتھ کھڑا ہے اور یقین دلایا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔

پاکستان بار کونسل کی مذمت

پاکستان بار کونسل کے نائب صدر عابد ساقی نے حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ لاقانونیت کی انتہا ہے کہ ایک سرکاری ادارے کے سپاہی نے متعدد گواہوں بشمول متاثرہ خاندان کے افراد، کی موجودگی میں اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا اور پھر فوری گرفتاری کے بجائے وہ چند روز تک آزاد رہا'۔

تبصرے (0) بند ہیں