جلال آباد: ہندوستانی قونصل خانے کے قریب دھماکا، نو افراد ہلاک

شائع August 3, 2013

فائل فوٹو—
فائل فوٹو—

جلال آباد: افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں ہندوستانی قونصل خانے کے قریب بم دھماکے نو شہری ہلاک ہوگئے ہیں تاہم طالبان نے حملے کی ذمے داری قبو کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار کے ترجمان احمد زئی عبدالزئی نے  بتایا کہ ہفتہ کی صبح تین خود کش بمباروں نے بارود سے بھری گاڑی قونصل خانے کے قریب بیرئیر سے ٹکرا دی۔

انہوں نے کہا کہ دھماکے سے اطراف کی دکانیں بری طرح متاثر ہوئیں۔

ننگر ہار پولیس کے سربراہ شریف امین نے کہا کہ حملے میں کم از کم نو افراد ہلاک جبکہ بچوں اور عمر رسیدہ افراد سمیت بائیس زخمی ہوئے، نجی ہسپتال کے حکام نے ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

ہندوستان نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے ہتھکنڈے انہیں جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو سے نہیں روک سکتے۔

ہندوستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس خود کش حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس سے افغانستان کو درپیش دہشت گردی کے خطرات کا اندازہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کہ ا طرح کے حملوں کے باوجود ہندوستان، افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کے عزم ے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

دہلی میں ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین نے بتایا کہ حملے میں تمام ہندوستانی حکام محفوظ رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ افغان عوام کو بحران سے نکالنے کی کوششوں پر بھی حملہ ہے۔

پاکستان نے بھی جلال آباد میں ہوئے بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ہلاک شدگان کے اہلخانہ سے گہرے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

یاد رہے کہ جس جگہ دھماکا ہوا اس سے کچھ ہی فاصلے پر پاکستانی سفارتخانہ بھی واقع ہے تاہم پاکستانی وزارت خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حملے میں سفارتخانے کے کسی بھی شخص کو نقصان نہیں پہنچا۔

مزید براں طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہفتے کو ہونے والے حملے میں ہمارے جنگجو ملوث نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کرتے۔

سن 2001ء میں طالبان دور حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں دو ارب ڈالرز سے زائد کی امداد فراہم کرنے والے ہندوستان پر ماضی میں بھی حملے ہو چکے ہیں۔

سن 2008ء میں ہندوستانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر حملے میں ساٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسی طرح 2010ء میں دو گیسٹ ہاؤسز پر خود کش حملوں میں سات ہندوستانیوں سمیت کم از کم سولہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کابل کو پاکستانی سرحد سے جوڑنے والی ایک اہم شاہراہ پر واقع جلال آباد میں حالیہ کچھ سالوں میں حملے ہوتے رہے ہیں۔

انتیس مئی کو ریڈ کراس کی عالمی کمیٹی کے کمپاؤنڈ پر ایک حملہ ہوا تھا جس میں طالبان شدت پسندوں نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔

اسی طرح مارچ میں سات خود کش بمباروں نے جلال آباد میں پولیس کے صدر دفتر پر حملے میں پانچ پولیس افسروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Amir Nawaz Khan Aug 05, 2013 10:37am
دہشت گردی مسلمہ طور پر ایک لعنت و ناسور ہے نیز دہشت گرد نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان۔ دہشتگرد ملک اور قوم کی دشمنی میں اندہے ہو گئے ہیں اور غیروں کے اشاروں پر چل رہے ہیں. خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے. اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور سینکڑوں ہزاروں بار پوری انسانیت کاقتل کرنے والے اسلام کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیںمعصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے۔ کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ انتہا پسند افغانستان کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کا قتل اسلامی تعلیمات کے مطابق حالت جنگ میں بھی جائز نہ ہے۔ نیز یہ ملا عمر کے حکم کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ عورتوں اور بچوں کو ہلاک نہ کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2025
کارٹون : 27 جون 2025