2 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری

اپ ڈیٹ 22 اگست 2020
ملک میں گندم کے ذخیرے میں 2 کروڑ 60 لاکھ 50 ہزار ٹن گندم موجود ہے جبکہ 14 لاکھ 11 ہزار ٹن کا شارٹ فال ہے۔ فائل فوٹو:اے ایف پی
ملک میں گندم کے ذخیرے میں 2 کروڑ 60 لاکھ 50 ہزار ٹن گندم موجود ہے جبکہ 14 لاکھ 11 ہزار ٹن کا شارٹ فال ہے۔ فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کو 2 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے اور چینی کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی میں کمی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ملک میں قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع جنہوں نے اس اجلاس میں شرکت کی، نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کو دو ضروری اشیا، چینی اور گندم کی قیمتوں پر قابو پانے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزارت صنعت نے بولی لگوانے کے بعد چینی کی درآمدات کی ذمہ داری وزارت قومی فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ (ایم این ایف ایس آر) کو دینے کی کوشش کی جو حوصلہ افزا ثابت نہیں ہوئیں۔

اعلیٰ دفتر کے دباؤ کے تحت ایم این ایف ایس آر کو اپنے وزیر سید فخر امام کی لازمی منظوری کے بغیر چینی درآمد پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی میں کمی کے لیے سمری منتقل کرنے پر مجبور کیا گیا تاہم آخری لمحے میں انہوں نے وزارت صنعت سے ذمہ داری خود پر لینے سے انکار کردیا۔

مزید پڑھیں: گندم کی کوئی کمی نہیں، وفاقی حکومت کس کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے، صوبائی وزرا

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں ایم این ایف ایس آر کے سیکریٹری عمر حامد خان نے بتایا کہ 5 لاکھ ٹن گندم کی درآمد نجی سیکٹر کی جانب سے کی جا رہی ہے اور پہلی کھیپ 26 اگست اور دوسری 4 ستمبر کو ملک کی بندرگاہ پر پہنچے گی، اس کے بعد اجلاس نے عوامی شعبے میں پاسکو کے لیے ٹی سی پی کو 2 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے دو مہینوں میں 7 لاکھ ٹن گندم کی در آمد قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو کم کرنے، قلت پر قابو پانے اور ملک میں اس ضروری اشیا کی ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی میں مدد دے گی۔

ای سی سی نے وزیر برائے معاشی امور مخدوم خسرو بختیار اور سیکریٹری عمر حامد خان سے کہا کہ وہ صوبائی حکومتوں سے مشورہ کریں کہ آیا وہ عالمی سپلائرز کے ذریعہ ٹی سی پی کو پیش کردہ نرخوں پر گندم کی کچھ مقدار خریدنا چاہیں گے کیونکہ جولائی اور اگست کے مہینوں میں عام طور پر عالمی سطح پر گندم کی قیمتیں کم ہی رہتی ہیں۔

ایم این ایف ایس آر نے صوبوں کے لیے 40 کلوگندم کی قیمت 1600 سے 1700 تک جاری کرنے کی تجویز پیش کی تاہم ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا خیال تھا کہ صوبائی حکومتوں کی مرضی پہلے معلوم کی جائے کہ وہ درآمدات کے خود انتظامات کرنا چاہتے ہیں یا ٹی سی پی سے درآمد کے علاوہ ٹی سی پی کے حادثاتی اور ہینڈلنگ چارجز کے ساتھ خریداری کرنا چاہتے ہیں۔

ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ حکومت نے پہلے ہی ٹی سی پی کو 15 لاکھ ٹن گندم کی شفاف اور عالمی بولی کے مرحلے سے درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ پنجاب کے 7 لاکھ ٹن، خیبر پختونخوا کے 3 لاکھ ٹن اور پاسکو کے اسٹریٹجک ذخائر کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ 5 لاکھ ٹن کی ضرورت پوری کی جاسکے۔

گندم کو منفرد انداز میں درآمد کیا جائے گا تاکہ بہترین قیمت وصول کی جاسکے اور ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو بھی بچایا جاسکے اور جب ضرورت ہو تو قلت کو پورا کیا جاسکے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک میں گندم کے ذخیرے میں 2 کروڑ 60 لاکھ 50 ہزار ٹن گندم موجود ہے جس میں گندم کی تازہ پیداوار سے 2 کروڑ 54 لاکھ 57 ہزار ٹن اور 6 لاکھ 2 ہزار ٹن گزشتہ اسٹاک سے شامل ہے جبکہ 14 لاکھ 11 ہزار ٹن کا شارٹ فال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اربوں روپے کی گندم کی خوربرد کا معاملہ، وزیراعلیٰ سندھ نیب میں پیش

سرکاری شعبے میں گندم کے ذخائر 63 لاکھ 20 ہزار ٹن ریکارڈ کی گئی جبکہ اس سے گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران یہ تعداد 75 لاکھ 50 ہزار ٹن تھی۔

بیان میں کہا گیا کہ ای سی سی نے چینی کی تیزی سے کم ہوتے ہوئے ذخیرے کے پیش نظر نجی درآمد کنندگان کے ذریعے چینی کی درآمد کے لیے بھی ایک تجویز پیش کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چینی اس وقت 12 لاکھ ٹن رہ گئی ہے تاہم اس کا امکان ہے نومبر 2020 کے اوائل تک یہ ختم ہوجائے گا۔

ای سی سی نے نجی درآمد کنندگان کی جانب سے چینی کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز کو کم کرنے کا بھی فیصلہ کیا تاکہ صارفین کو مناسب اور سستی قیمت پر فراہمی ہوسکے۔

ایم این ایف ایس آر نے اجلاس کو بتایا کہ ای سی سی نے وزارت صنعت کی سمری پر ٹی سی پی کے ذریعے 3 لاکھ ٹن چینی کی درآمد کی اجازت دی تھی جسے کابینہ نے 4 اگست کو منظور کرلیا تھا۔

10 اگست کو ٹینڈرز طلب کیے گئے تھے جس پر پانچ سے چھ کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم بولی لگانے والوں میں سے صرف ایک ہی بولی کے معیار کے مطابق قابل قبول تھا۔

ایم این ایف ایس آر کے سیکریٹری نے احتجاج کیا کہ ان کی وزارت کو چینی کی درآمد میں گھسیٹا جارہا ہے حالانکہ یہ تمام کام وزارت صنعت بشمول شوگر کونسل، گنے کے کمشنرز، پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن اور ٹی سی پی کا ہے۔

متعلقہ سکریٹریز کے درمیان گرما گرم بحث و مباحثے کے بعد وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر چینی کی درآمد کا عمل مکمل کرنے پر راضی ہوگئے۔

تبصرے (0) بند ہیں