مقبوضہ کشمیر میں 'مودی کی آباد کاری اسکیم'، 4 لاکھ سے زائد نئے ڈومیسائل جاری

اپ ڈیٹ 30 اگست 2020
متعدد مقامی افراد نے اپنے پرانے دستاویزات کے تبادلے سے انکار کیا ہے، جس سے ان کی زندگی مزید مشکل ہوسکتی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
متعدد مقامی افراد نے اپنے پرانے دستاویزات کے تبادلے سے انکار کیا ہے، جس سے ان کی زندگی مزید مشکل ہوسکتی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

سری نگر: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے 1947 کے بعد پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر کے رہائشی قانون میں تبدیلی کی گئی، جسے بظاہر وادی کے حوالے سے درپیش چیلنج کو طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ناقدین کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے کیے گئے آباد کاری کے اقدامات کی طرز پر عمل درآمد کرتے ہوئے مودی کی ہندو انتہا پسند حکومت مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اکثریتی خطے کی شناخت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

واضح رہے کہ ہمالیہ کا یہ خطہ 1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہوگیا تھا۔

اب تک مودی حکومت نے کیا کیا ہے؟

مقبوضہ کشمیر میں 1989 سے قابض بھارتی فورسز اور حریت پسندوں کے درمیان جاری کشیدگی کے نتیجے میں اب تک لاکھوں کشمیری جان سے جا چکے ہیں جن میں سے بیشتر شہری ہیں۔

خطے کی 65 فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جہاں بھارتی حکومت کے خلاف 100 فیصد تک نفرت پائی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرے کے 365 روز

5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل کو ختم کردیا تھا، جس کے مطابق ان کو علیحدہ پرچم اور آئین کا حق بھی حاصل تھا۔

مذکورہ اقدام سے قبل بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کرکے کرفیو لگا دیا تھا، جہاں وادی میں پہلے سے ہی 5 لاکھ سے زائد بھارتی فوج تعینات ہیں، ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ ٹیلی فون اور انٹر نیٹ کی سہولت کو بھی بند کردیا گیا۔

مذکورہ اقدام کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر کو نئی دہلی کے تحت چلنے والی یونین قرار دے دیا گیا جبکہ لداخ کے خطے کو علیحدہ انتظامی علاقہ قرار دے دیا گیا۔

بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، جو بھارتیہ جنتا پارٹی (پی جے پی) کی پیرنٹ جماعت ہے، کی جانب سے مذکورہ اقدامات کو کشمیر میں نافذ کرنے کے لیے کئی عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

نریندر مودی کے اس اقدام کو بھارت میں رہنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمان اقلیت اور بھارت کی سیکولر روایات کے خلاف قرار دیا گیا اور خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یہ اقدامات ہندو ریاست بنانے کی جانب قدم ہے تاہم وہ ان باتوں کی تردید کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فورسز نے 24 گھنٹے میں 5 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا

طویل عرصے سے کشمیر پر ریسرچ کرنے والے سائراکیز یونیورسٹی میں بشریات (اینتھوپولوجی) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مونا بھان کے مطابق ‘میں ایک ایسا منصوبہ دیکھ رہا ہوں جو ایک ہندو نوآبادیات کی جانب گامزن ہے’۔

خصوصی قوانین کا کیا ہوا؟

علاوہ ازیں نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذ خصوصی رہائشی قوانین کو بھی ختم کردیا، جو 1927 سے نافذ تھے، اور ان کے مطابق صرف مستقل رہائشی کو ہی زمین اور جائیداد خریدنے جبکہ سرکاری ملازمت، یونیورسٹیز میں جگہ اور مقامی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی۔

لیکن بھارتی حکومت کے نئے اقدام کی وجہ سے اب کوئی بھی بھارتی شہری مقبوضہ وادی کے ڈومیسائل کے حصول کے لیے درخواست دے سکتا ہے، جس کے بعد اسے ان تمام معاملات تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال، ملک بھر میں یومِ استحصال منایا گیا

نئے اقدامات کے تحت وہ لوگ ڈومیسائل حاصل کرسکیں گے جو گزشتہ 15 سال سے کشمیر میں رہائش پذیر ہوں، جن میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے 28 ہزار مہاجرین اور 17 لاکھ مہاجر مزدور بھی شامل ہیں، اور ان میں سے بیشتر ہندو ہیں۔

اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 7 سال سے کام کرنے والے سرکاری ملازمین اور ان کے بچے یا ایسے افراد، جنہوں نے خاص قسم کا امتحان دیا ہو، وہ بھی ڈومیسائل حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔

تاریخ دان اور سیاسی تجزیہ کار صدیق واحد کے مطابق ‘1947 کے بعد یہ سب سے زیادہ سخت پابندیاں ہیں’، اور ‘جس کا مقصد آبادیاتی (ڈیمو گرافی) طوفان کے راستے کو کھولنا ہے’۔

مقامی لوگوں کو کیا کرنا چاہیے؟

مستقل رہائش کے حق پر پورا اترنے کے لیے مقامی افراد کو اب دوبارہ ڈومیسائل کے حصول کے لیے درخواستیں دینا ہوں گی۔

اس کے حصول کے لیے، انہیں پرمیننٹ ریزیڈنٹ سرٹیفکیٹ (پی آر سی)، 1927 کی قابل اعتبار دستاویزات پیش کرنا ہوں گی، جو تقریبا نا ممکن نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غیر قانونی اقدامات، پاکستان کا سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ

ایک انجینیئرنگ گریجویٹ کا کہنا تھا کہ یہ سب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ زندگی کی سہولیات کے بدلے میں بھارت سے اپنی سیاسی وابستگی ظاہر کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘انہوں نے کہا، آپ کو نوکری چاہیے، اچھا، پہلے ڈومیسائل لے کر آؤ’۔

اگر لوگ شکایت کریں تو کیا ہوتا ہے؟

کورونا جیسی عالمی وبا کے باوجود مقبوضہ وادی کے لیے 4 لاکھ 30 ہزار نئے ڈومیسائل جاری کیے جاچکے ہیں، یہ اب تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا یہ ڈومیسائل مقامی لوگوں کو جاری کیے گئے ہیں یا غیر مقامی باشندوں کو جاری ہوئے ہیں۔

متعدد مقامی افراد نے اپنے پرانے دستاویزات کے تبادلے سے انکار کیا ہے، جس سے ان کی زندگی مزید مشکل ہوسکتی ہے اور کچھ لوگ اپنے پڑوسیوں کو بتائے بغیر یہ کام خاموشی سے سر انجام دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے آئینی دہشت گردی کی، راجا فاروق

انتظامیہ کی جانب سے 'ملک مخالف' کہلائے جانے سے بچنے کے لیے بھی بہت سے کشمیری اس معاملے پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں اور بیشتر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کردیئے ہیں۔

انتظامیہ کے خوف سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے والے ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ ‘یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ مجھے اپنے علاقے میں شہریت کا حق حاصل کرنے کے لیے غیر مقامی افراد سے مقابلہ کرنا ہوگا'۔


یہ رپورٹ ڈان اخبار میں 30 اگست 2020 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں