امن مذاکرات میں خواتین مذاکرات کار سخت گیر طالبان کا سامنا کرنے کو تیار

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2020
امن مذاکرات میں افغانستان کی حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
امن مذاکرات میں افغانستان کی حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والی 5 خواتین اب امن مذاکرات میں شدت پسند گروپ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

افغانستان میں مذاکرات کی میز پر ان خواتین کی موجودگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے البتہ اس مذاکراتی ٹیم میں مردوں کا غلبہ ہے جس میں افغانستان کی جانب سے مذاکراتی ٹیم میں 16 مرد شامل ہیں جبکہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم مکمل طور پر مردوں پر مشتمل ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان حکومتی وفد میں 5 خواتین بھی شامل

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور مذاکراتی عمل میں شریک خواتین میں سے ایک فوزیہ کوفی نے کہا کہ طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انہیں نئے افغانستان کا سامنا ہے اور انہیں اس کے حساب سے جینا سیکھنا ہوگا۔

مشہور سیاستدان پر زندگی میں دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں جس میں سے حالیہ حملہ دو ہفتے قبل دارالحکومت کابل کے قریب کیا گیا تھا اور ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب طالبان اور افغان حکومت نے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

فوزیہ کوفی نے خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں خاتون کا اس طرح کا کردار ہونا کوئی معمولی بات نہیں، لہٰذا ان لوگوں کے درمیان راہ نکالنی ہوتی ہے جو خواتین کی نمائندگی پر یقین نہیں رکھتے۔

یہ بھی پڑھیں: 'بھارت طالبان سے مذاکرات کو امن عمل میں مددگار سمجھتا ہے تو اسے ایسا کرنا چاہیے'

جب طالبان نے افغانستان میں 1996 سے 2001 تک حکومت کی تھی تو فوزیہ کوفی کے شوہر کو جیل بھیج دیا گیا تھا اور ناخنوں پر پالش لگانے پر انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔

اس دور میں اگر خواتین مکمل برقع کے بغیر گھر سے باہر نکلتیں تو انہی مذہبی پولیس سڑکوں پر مارتی تھی اور جن افراد پر زنا کا الزام ہوتا، اسپورٹس اسٹیڈیم میں جمعے کی نماز کے بعد ان کا سر قلم کردیا جاتا تھا۔

ابھی بھی کئی پرانی روایات برقرار ہیں اور 2001 میں امریکی حملے کے بعد بھی دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے ماحول زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔

تاہم کابل اور دیگر کچھ شہروں میں صورتحال میں بہتری آئی ہے، خواتین اب پڑھائی کر رہی ہیں اور منتخب عہدوں پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کر رہی ہیں البتہ ان کی تعداد انتہائی کم ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

فوزیہ ان چند خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2019 میں طالبان سے غیر سرکاری مذاکرات کیے تھے اور وہ جانتی ہیں کہ خواتین مذاکرات کاروں کو کس طرح کی جنگ کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آپ کیا بات کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نے کیا پہنا ہوا ہے اور آپ کا اسکارف صحیح سائز کا ہے یا نہیں۔

رواں سال فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کے افغان حکومت سے مذاکرات پر اتفاق ہوا تھا تاکہ امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔

قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ حل ہونے کے بعد دونوں فریقین نے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے دوحہ جانے پر تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: میٹرنٹی ہوم اور جنازے میں حملوں سے 37 افراد ہلاک

مذاکراتی عمل میں شریک اسلامی قوانین کی ماہر 66 سالہ فاطمہ گیلانی نے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تحفظات ہیں۔

80 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کے ترجمان کے فرائض انجام دینے والی فاطمہ نے کہا کہ افغانستان میں تمام خواتین میں خوف ہے، ہم سب میں یہ خوف ہے کہ جب کبھی بھی افغانستان میں تبدیلی آئی اور سیاسی تبدیلی آئی تو خواتین کو ہی نقصان پہنچے گا۔

البتہ انہوں نے کہا کہ انہیں مذاکراتی ٹیم میں شامل مردوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ بھی انہی چیزوں پر یقین رکھتے ہیں جن پر میں یقین رکھتی ہوں۔

طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں مذہب، بنیادی اقدار اور رسومات، اسلام اور سیز فائر کے قیام جیسی چیزوں پر اولین بنیادوں پر گفتگو کی جائے گی۔

فاطمہ گیلانی، جو اس وقت افغان ریڈ کراس کی صدر بھی ہیں، نے مزید کہا کہ میں ایسا افغانستان چاہتی ہوں جہاں آپ خود کو خطرے میں محسوس نہ کریں اور اگر آپ آج یہ مقصد حاصل نہ کر سکے تو کبھی بھی نہیں کر سکیں گے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، امن عمل خطرات سے دوچار

مذاکراتی عمل سے قبل جب طالبان سے خواتین کے حقوق کی بات کی گئی تو ان کے نمائندوں نے کہا تھا کہ خواتین کو اسلامی قوانین کے مطابق تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

مذاکراتی عمل میں شریک ایک اور خاتون حبیبہ سرابی کو طالبان نے اپنے دور میں کام کرنے سے روک دیا تھا اور وہ افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آ گئی تھیں تاکہ ٹیچنگ کا عمل جاری رکھ سکیں۔

حبیبہ بھی چاہتی ہیں کہ افغانستان ایک جمہوری ملک بنے اور اسے طالبان کی امارات حکومت کی طرح نہ چلایا جائے جہاں آئینی حقوق پر اسلامی قوانین کو ترجیح دی جاتی ہے۔

62 سالہ خاتون وطن واپسی پر ملک کی پہلی خاتون گورنر بنی تھیں اور دو مرتبہ وزارت کےمنصب پر بھی فائز رہ چکی ہیں۔

ان کا ماننا ہے طالبان کے مذاکراتی عمل میں شریک افراد تو افغان حکومت کے سیاسی مذاکرات کے عمل سے متفق ہیں، تاہم اب بھی اکثریت خصوصاً محاذ جنگ پر موجود افراد کی وہی پرانی سوچ اور رویہ ہے۔

مذاکراتی ٹیم میں شریک دیگر دو خواتین میں سے ایک شہلا فرید ایک وکیل اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں اور شریقہ زرمتی سابق براڈ کاسٹر و مشرقی صوبے پکتیکا کی مقامی سیاستدان ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں