افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، امن عمل خطرات سے دوچار

اپ ڈیٹ 29 اپريل 2020
طالبان اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو قطر میں معاہدہ ہوا تھا — فائل/فوٹو:اے ایف پی
طالبان اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو قطر میں معاہدہ ہوا تھا — فائل/فوٹو:اے ایف پی

افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث گزشتہ دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور امریکا کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں روزانہ درجنوں جنگجو اور شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں فریقین کی جانب سے کارروائیوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے عالمی وبا کے دوران میں افغانستان میں خانہ جنگی بدترین شکل اختیار کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

اوورسیز ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے محقق ایشلے جیکسن کا کہنا تھا کہ 'امن معاہدہ ابھی ناکارہ نہیں ہوا لیکن یہ ابھی صرف سانسیں لے رہا ہے، یہ اندازے ہیں کہ معاہدے کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہونے میں کتنا وقت ہے'۔

افغان عہدیدار کا کہنا تھا کہ جب سے 29 فروری کو دوحہ میں طالبان نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اس وقت روزانہ اوسطاً 55 حملے کیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان کے مقابلے میں شیلنگ اور فضائی کارروائیوں کے ذریعے افغان سیکیورٹی فورسز بچوں کی زیادہ اموات کے ذمہ دار ہیں۔

ماہرین کے مطابق معاہدے کی زبان سے خون ریزی متوقع تھی کیونکہ امریکا نے اپنے 18 سالہ دشمن کو بے پناہ سہولتیں دی تھیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امن معاہدے کے بعد مسلسل کہتے رہے ہیں کہ وہ امریکی فوجیوں کا فوری انخلا چاہتے ہیں اسی طرح طالبان کی جانب سے بھی امریکی یا غیر ملکی فوجیوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔

فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز تھنک ٹینک کے سینئر محقق بل روگیو کا کہنا تھا کہ 'طالبان سمجھتے ہیں کہ معاہدہ قبضے کے خاتمے کی ڈیل ہے، امریکا کسی بھی صورت افغانستان نکلنا چاہتا ہے اور اسی لیے طالبان کے تمام مطالبات کو مان لیا ہے'۔

مزید پڑھیں:افغان حکومت نے مزید 100 طالبان قیدی رہا کردیے، مجموعی تعداد 300 ہوگئی

کابل میں موجود سلامتی امور کے ماہر نیشانک موتوانی کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے نے طالبان کو قانونی حیثیت دی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'طالبان بنیادی طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ فتح ان کی ہے'۔

یاد رہے کہ طالبان اور امریکا نے 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکا نے فوجیوں کی واپسی کی یقین دہانی کروائی تھی۔

چار صفحات پر مشتمل معاہدے میں کہا گیا تھا کہ طالبان، افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔

امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔

طالبان نے کہا تھا کہ وہ 10 مارچ 2020 سے بین الافغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے، بین الافغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ اس کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔

معاہدے کے تحت امریکا اور طالبان نے اتفاق کیا تھا کہ 'اعتماد سازی' کے لیے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا اور کہا گیا تھا کہ '10 مارچ تک طالبان کے تقریباً 5 ہزار اور افغان فورسز کے ایک ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے'۔

بعد ازاں اپریل میں قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا اور سیکڑوں طالبان قیدیوں کو رہا کردیا گیا اور طالبان نے فورسز کے قیدیوں کو آزاد کیا تاہم اس معاملے پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان تنازع بنتا رہا۔

طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی تک کشیدگی کو کم کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس وقت تک مذاکرات بھی نہیں ہوں گے۔

طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ 'اشرف غنی کی حکومت ہمارے اعصاب کو آزمانا چاہتی ہے لیکن ہم انہیں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہم تھکے نہیں ہیں، ہم اب بھی تازہ دم اور لڑنے کے لیے تیار ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں