‘لائبریری’


بوڑھا مارکیز اس سانحے سے بے خبر تھا، جو اپنے پر پھیلائے شہر پر اتر رہا تھا۔

شاید اس پل اس کے ذہن میں فیڈل کاسترو سے ہونے والی ملاقات ہو، یا شاید وہ اپنے ناول ‘تنہائی کے 100 سال’ کی اساطیری شہرت کی بابت سوچ رہا ہو، جو کبھی کبھی اسے گراں گزرتی۔ مگر یہ طے تھا کہ اسے ساحلی شہر پر اترنے والے المیے کی خبر نہیں تھی۔

لابئریری مکان کے عقبی حصے میں تھی اور مارکیز ادھر اپنی ان کتابوں کے ساتھ موجود تھا ایک زمانہ جن کا گرویدہ تھا۔ ‘ایک پیش گفتہ موت کی روداد’، ‘کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا’ اور Love in the Time of Cholera۔

اسے خبر تھی کہ ابھی چند ماہ قبل، جب دنیا پر ایک پُراسرار وبا نے یلغار کی تھی، اور سماجی جانور کہلانے والے انسان کو تنہائی کی سمت دھکیل دیا تھا، تب بہتوں نے اس کے ناول کے عنوان میں موجود لفظ cholera کو corona سے بدل دیا تھا۔

اس یاد نے مارکیز کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔

البتہ وہ لوگ، جو اس صبح سڑکوں پر موجود تھے، مسکراہٹ ان کی یادداشت سے محو ہوچکی تھی۔ یوں جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں۔

وہ آنکھوں میں خوف لیے آسمان کو تک رہے تھے۔ آسمان، جہاں کچھ رونما ہونے کو تھا۔


‘اسٹوڈیو’


گو ایدھی کی بینائی کمزور ہوگئی تھی، مگر اس نے آسمانوں میں رونما ہونے والے پُراسرار واقعے کو دیکھ لیا۔

وہ کئی سانحات دیکھ چکا تھا۔ وہ شہر میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کا، کٹی پٹی، بوری بند لاشوں کا، شاپر میں پھینکے جانے والے نومولود بچوں کا گواہ تھا۔ اور اب اس کی آنکھیں بدلتے، بپھرتے آسمان کو دیکھ رہی تھیں۔

وہ کھڑکی کے پاس ہی موجود تھا۔ کھڑکی، جس میں لوہے کی گرل تھی، جس کے پٹ کھلے تھے، اور باہر ایک درخت تھا، جو اس شہر کے مانند سوکھ چکا تھا۔ پیڑ کی خشک ٹہنیوں کے ادھر آسمان تھا، جسے پرقوت بادلوں نے ڈھانپ دیا تھا۔

وہیں اس کمرے میں ایک بوڑھی ڈاکٹر بھی موجود تھی۔

ایک جرمن ڈاکٹر۔ ایک نن، جس کا لمس کوڑھیوں کو اچھا کردیتا اور جس کی موجودگی بیمار کو ٹھیک کردیتی۔ جو ڈاکٹر رتھ فاؤ کے نام سے معروف تھی۔

کمرے میں بسی رنگوں کی مہک پر بارش کی یلغار ہونے کو تھی۔


‘مکان’


جوں ہی آسمان چنگھاڑا، عورت پر لرزہ طاری ہوگیا۔

نتھوں میں داخل ہونے والی بُو نے کلثوم بی بی کو عشروں پرانا سانحہ یاد دلا دیا۔ سانحہ، جو سیکڑوں افراد کی جان لے گیا تھا۔

تب وہ بچی تھی اور ایک ایسے شہر کی باسی تھی، جو اب اس ریاست کا حصہ نہیں رہا تھا۔

ڈھاکا میں، 71ء کے فسادات سے پہلے کلثوم بی بی نے ایک روز آسمان کو یوں ہی چنگھاڑتے سنا تھا۔ چند ہی ساعتوں بعد طوفانی بارش نے شہر کو آن لیا۔

پانی ہر سمت سے آتا تھا۔ وہ آسمان سے نازل ہوا اور زمین سے پھوٹ پڑا۔ ہوائیں اتنی تیز تھیں کہ چیزیں اپنا وزن کھو بیٹھیں۔ باحیثیت، بے حیثیت ہوئے۔ بارش کے سامنے ہر شے ہیچ ثابت ہوئی۔

پانی تو چند روز میں اتر گیا، مگر اس نے انسانی جسموں میں جو خوف داخل کیا تھا، وہ عرصے تک خشک نہیں ہوا۔

کلثوم بی بی کا خیال تھا کہ وہ اس ہولناک بارش کو بھول بیٹھی ہے، جو ڈھاکا کو بہا لے گئی تھی، مگر جب کراچی پر چھائے دبیز سیاہ بادل گرجے، اور عورت کے نتھوں میں ایک برسوں پرانی بُو داخل ہوئی، تب اس کے فالج زدہ بدن میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں، جس کا احساس وہ بھلا چکی تھی، خوف ڈستا تھا۔

کلثوم بی بی مکان میں تنہا تھی، فالج زدہ، حرکت کرنے سے قاصر، بے بس۔ اور اس کے بیٹے شہزاد کے دفتر سے لوٹنے میں ابھی 2 گھنٹے تھے، اور آسمان پر ایک افتاد ٹوٹ پڑی تھی۔

ایک ایسی بارش، جس کا شہر نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔


لائبریری میں موجود درویش صفت ٹالسٹائی نے مارکیز سے ذرا پہلے اس المیے کو محسوس کرلیا، جو شہر کو لپیٹ میں لے چکا تھا۔

وہ دونوں ایک عرصے سے ایک ہی کمرے میں تھے۔ خوش اور خاموش۔ مگر پھر طوفانی بارش کا ظہور ہوا۔ ٹالسٹائی کی نشست کمرے کے داخلی حصے کی جانب تھی۔ سامنے ایک چھوٹا سا روشن دان تھا، جہاں سے وہ دبیز بادل دکھائی دے رہا تھا، جو سیاہ اور بے رحم تھا اور پوری قوت سے شہر پر برس رہا تھا۔

اس کمرے سے میلوں دُور، شہر کی ایک غریب بستی میں ایک بوسیدہ بستر پر لیٹی کلثوم بی بی نے جو چنگھاڑ سنی تھی، وہی چنگھاڑ ٹالسٹائی اور مارکیز کی سماعتوں سے بھی ٹکرائی۔

پانی پوری قوت سے برسنے لگا۔ جس کمرے میں وہ تھے، پانی اس کی دیواروں میں سرایت کرگیا۔ کسی سانپ کی طرح اس نے کھلے روشن دان سے داخل ہونے کا راستہ تلاش کرلیا تھا۔

ضعیف ٹالسٹائی پوری طرح بھیگ چکا تھا۔ مارکیز نے جب درویش کو اس حال میں دیکھا تو اس کی آنکھوں میں بسے دُکھ نے ایک آنسو کی شکل اختیار کرلی۔

آج شہر میں کرب کے آنسوؤں کی برسات تھی۔


بارش اتنی ہولناک تھی کہ فقط ایک گھنٹے میں شہر کئی برس پیچھے چلا گیا۔

بدنصیب علاقے زیرِ آب آگئے۔ کمزور بجلی کا نظام ڈھ گیا۔ سستا مواصلاتی سسٹم بیٹھ گیا اور انسان بے وقعت ہوا۔

ایدھی کی بینائی کمزور تھی، مگر وہ اسٹوڈیو میں داخل ہوتے پانی کو دیکھ سکتا تھا۔ قریبی نالے پر تجاوزات قائم تھیں۔ پانی کا بہاؤ رک گیا، تو اس نے پھنکار کر رخ بدلا اور گرجتے ہوئے مکانوں کا رخ کیا۔

کمرے کا فرش پانی سے بھر چکا تھا اور پانی کی سطح مسلسل بلند ہورہی تھی۔ المیے چنگھاڑتے ہوئے اوپر چڑھ رہے تھے۔

ایدھی نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کی سمت دیکھا۔ دونوں کو ادراک تھا کہ اگر بارش یونہی جارہی ہے، تو کچھ ہی دیر میں مٹیالہ، بے رحم پانی انہیں آن لے گا۔


کمرے میں داخل ہوتے پانی کی آواز پھنکارتے سانپ جیسی تھی۔ گو دن تھا، مگر یوں لگتا تھا جیسے تاریکی چھا گئی ہو۔

کلثوم بی بی نے ان دعاؤں کو دہرانے کا فیصلہ کیا، جو اسے ازبر تھیں، مگر یکدم اسے یہ درد آمیز احساس ہوا کہ وہ ان دعاؤں کو بھول چکی ہے، شاید وہ پھر ڈھاکا میں تھی۔

شہر کے نشیبی علاقوں میں سمندر داخل ہوگیا تھا۔ بدقسمتی کا ریلا بہہ رہا تھا اور کلثوم بی بی، جو تنہا تھی، فالج زدہ تھی، اپنے بوسیدہ بستر پر دراز پانی کی پھنکار سن رہی تھی، جو اس کے کمرے میں تیزی سے داخل ہورہا تھا اور مسلسل اوپر اٹھ رہا تھا۔

عورت نے موت کا ذائقہ اپنی زبان پر محسوس کیا۔


اپنے بیوی بچوں کو، موبائل فونز، لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانکس آئٹم کو بچانے میں مصروف فکشن نگار کو یکدم اپنی لائبریری کا خیال آیا۔

ایک چنگھاڑ سنائی دی۔

یہ بادلوں کی گھن گھرج نہیں تھی، بلکہ اس کے اندر کا خوف تھا۔ اسے یوں لگا، جیسے اس کا خزانہ پانی میں بہہ کر ضائع ہوگیا۔ وہ دیوانہ وار لائبریری کی سمت دوڑا ، جہاں ٹالسٹائی اور مارکیز کی کتب کے ساتھ اس نے کتنا ہی وقت گزرا تھا۔

کچھ یہی حال اس پینٹر کا بھی تھا، جسے پارکنگ ایریا میں بھرنے والے پانی نے ہلکان کر رکھا تھا، مگر جب اس پانی میں اس نے سرخ رنگ کو بہتے دیکھا، تو اسے اپنے ان فن پاروں کا خیال آیا، جو اسٹوڈیو میں موجود تھے اور ان ہی فن پاروں میں عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر رتھ فاؤ کے پورٹریٹ بھی تھے۔

ہیجان میں مبتلا مصور اسٹوڈیو کی سمت دوڑتا ہے، جہاں اس نے رنگوں سے ایک کائنات تخلیق تھی، جسے بارش نے بے رنگ کردیا تھا۔

مگر ان دونوں سے زیادہ رفتار کلثوم بی بی کے بیٹے شہزاد کی تھی۔

اس نے ندی نالے عبور کیے۔ دریا پار کیے۔ سمندر کو چیر ڈالا اور بالآخر اپنے گھر کے دروازے پر آن پہنچا۔

ایک ہی وقت میں، برستے آسمان تلے، 3 وحشت زدہ انسان 3 دروازوں کے سامنے کھڑے تھے۔

ایک فکشن نگار، ایک مصور اور ایک بیٹا۔

اور ان تین دروازوں کی دوسری جانب وہ شے تھے، جو انہیں سب سے زیادہ عزیز تھی۔

کتابیں، پینٹنگز اور ماں۔

وہ تینوں سہمے ہوئے تھے۔ اور پانی پھنکار رہا تھا۔


اس ہولناک برسات میں فکشن نگار اپنی دل پذیر کتابوں سے محروم ہوگیا۔ اس کی لائبریری ضائع ہوئی۔

پینٹر کے بیش قیمت فن پارے اپنا رنگ کھو بیٹھے اور اس کا اسٹوڈیو تباہ ہوگیا۔

البتہ کلثوم بی بی بچ گئی، آخری لمحات میں اس کا بیٹا پہنچ گیا۔

اور پانی؟

وہ چند روز میں اتر گیا، مگر اس نے شہر کے جسم میں ایک خوف داخل کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں