حکومت سندھ، بلاول بھٹو کراچی پیکج کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں، شبلی فراز

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2020
یہ منصوبے ایک تا تین سال میں مکمل ہونے ہیں، شبلی فراز — فوٹو: اے پی پی
یہ منصوبے ایک تا تین سال میں مکمل ہونے ہیں، شبلی فراز — فوٹو: اے پی پی

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا کہ حکومت سندھ اور بلاول بھٹو زرداری 'کراچی پیکج' سے متعلق حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ کراچی پیکج کے تحت تمام منصوبوں کی سرپرستی وفاقی حکومت کرے گی، 611 ارب وفاق ادا کرے گی جبکہ باقی فنڈز صوبائی حکومت کے ذمہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام کو وزیراعظم کراچی پیکج کے حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں، وہ قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے سندھ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کر رہے ہیں اور وفاقی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ حکومت سندھ کے ساتھ کسی بھی مرحلے میں محاذ آرائی نہ ہو جس سے صوبے کی ترقی متاثر ہو۔

کراچی پیکج سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 1100 ارب روپے کے اس پیکج میں وفاق اور صوبائی حکومت کا حصہ ہے اور منصوبوں کی عمل درآمد کا مکینزم بھی طے پا یا تھا جس کے مطابق یہ منصوبے ایک تا تین سال میں مکمل ہونے ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ وفاقی حکومت گریٹر کراچی واٹر سپلائی منصوبے کے لیے 146 ارب، کراچی سرکلر ریلوے کے لیے 300 ارب، ریلوے فریٹ ٹرین منصوبے کے لیے 131 ارب، گرین لائن بی آر ٹی کے لیے 5 ارب، ان منصوبوں کے دوران بے دخل ہونے والوں کی آباد کاری کے لیے 254 ارب ادا کرے گی جبکہ باقی فنڈز صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔

مزید پڑھیں: کراچی کیلئے 1113 ارب روپے کا پیکج: 62 فیصد وفاق اور 38 فیصد حصہ صوبے کا ہوگا، اسد عمر

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومت میں جو اعتماد کا فقدان ہے اس کی ذمہ دار حکومت سندھ ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بلاول بھٹو کے معاونین غلط معلومات دے رہے ہیں یا وہ خود سمجھتے ہیں کہ حقائق کو ایسے ہی توڑ موڑ کر پیش کرکے کنفوژن پھیلانا بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاقی حکومت ایسے صوبے کی ترقی اور خوشحالی میں دلچسپی لیتے ہوئے رکے ہوئے منصوبوں کو مکمل کرنے جارہی ہے جہاں اس کی حکومت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ جمعہ کو کراچی کے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے شہر کو درپیش مسائل کے حل کرنے کے لیے 1100 ارب سے زائد کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔

اس پیکج کے اعلان کے فوری بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس پیکج میں 800 ارب روپے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت صرف 300 ارب روپے فراہم کرے گی۔

گزشتہ روز وفاقی وزیر اسد عمر نے کراچی کے امدادی پیکج پر بلاول بھٹو زرداری کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ شہر قائد کے لیے اعلان کردہ 1113 ارب روپے کے پیکج کے لیے 62 فیصد فنڈنگ وفاقی حکومت اور 38 فیصد سندھ حکومت فراہم کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا کراچی کیلئے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان

'(ن) لیگ نے کرپشن کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا'

وزیر اطلاعات نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نیب کے سامنے بھیگی بلی بنی ہوتی ہے اور باہر نکل کر اٹھائی گئی ہزیمت بیان کرنے کی بجائے جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہے، (ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت اس اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتی ہے کہ انہیں خود بھی یقین ہوجاتا ہے کہ ہمارا جھوٹ چل گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل نے شاہد خاقان عباسی پر سنجیدہ الزمات لگائے اور اس سے متعلق مصدقہ دستاویزات اور شواہد بھی پیش کیے اور آج نیب نے اسی کیس سے متعلق سابق وزیر اعظم کو طلب کر کے سوالات پوچھے ہیں، آئے دن (ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت کے کارنامے سنتے رہتے ہیں، ان لوگوں نے کرپشن کا کوئی طریقہ اور جگہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ کیمرے لگائے جائیں لیکن اس بات کا کون جواب دے گا کہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر پارلیمنٹ میں جس اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولا اور جو دستاویزات پیش کیں سپریم کورٹ میں سب نفی ہوگیا۔

'این آر او کی کوئی شکل نہیں ہوتی، یہ ریلیف ہوتا ہے'

ایک سوال کے جواب میں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے حوالے سے قانون سازی کی آڑ میں این آر او مانگنے کے ساتھ ساتھ نیب کو بند کرنے، ایک ارب کی کرپشن کو کرپشن نہ کہنے سمیت جو 34 ترامیم دیں ان پر کبھی بھی عمل نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ این آر او کی کوئی خاص شکل نہیں ہوتی بلکہ ایسے ہی ریلیف ہوتا ہے جس سے ایسی شخصیات کو قانون سے بالاتر سمجھا جاتا ہے، اپوزیشن کو این آر او دینے سے بہتر ہے کہ پورے ملک کی جیلوں کو کھول دیا جائے اور چھوٹے جرائم کرنے والوں کو بھی ایسے ہی آزاد کیا جائے جیسی آزادی اپوزیشن مانگ رہی ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت نے آرڈیننس کی شکل میں کلبھوشن یادیو کو این آر او دیا، بلاول بھٹو

ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی سے وہ لوگ پریشان ہیں جنہوں نے پاکستان میں منی لانڈرنگ کی بنیاد رکھی، انہی لوگوں کی وجہ سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا، پارلیمنٹ میں ملکی مفاد کے خلاف رائے دینے والے دشمنوں کے آلہ کار سمجھے جائیں گے کیونکہ بھارت نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈالنے کی ہر کوشش کی ہے۔

ایس ای سی پی کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل کے مبینہ اغوا سے متعلق وزیر انہوں نے کہا کہ ساجد گوندل کے اغوا کے حوالے سے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور عدالت نے بھی ہدایات جاری کی ہیں، ملک میں بسنے والے ہر عام شہری یا سڑک پر بھیک مانگنے والا بھی اگر اغوا ہوجائے تو اس کی بازیابی ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو اسی طرح کام کرنا چاہیے جیسے کسی اہم اور بڑی شخصیات کی بازیابی کے لیے کرتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں