حزب اللہ کی معاونت کا الزام، امریکا نے 2 سابق لبنانی وزرا پر پابندی لگادی

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2020
امریکا نے لبنانی سابق وزرا پر سنگین الزامات عائد کیے—فائل/فوٹو:اے ایف پی
امریکا نے لبنانی سابق وزرا پر سنگین الزامات عائد کیے—فائل/فوٹو:اے ایف پی

امریکا نے لبنان کے 2 سابق وزرا پر حزب اللہ کی معاونت کرنے کے الزام میں پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا۔

امریکا کے محکمہ خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'امریکا نے لبنان کے سابق وزرا یوسف فنیانوس اور علی حسن خلیل پر ایگزیکٹو آرڈر کے تحت دہشت گرد تنظیم حزب اللہ کو مواد فراہم کرنے پر پابندی عائد کردی ہے'۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 'یوسف فنیانوس اور علی حسن خلیل نے سابق کابینہ کے اراکین کی حیثیت سے حزب اللہ کو سیاسی اور معاشی معاونت فراہم کی'۔

یہ بھی پڑھیں:مصطفیٰ ادیب لبنان کے نئے وزیراعظم، فوری اصلاحات، آئی ایم ایف معاہدے پر زور

امریکا نے لبنان کے سابق وزرا پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے 'حزب اللہ کی ذیلی کمپنیوں کو لاکھوں ڈالرز مالیت کے ٹھیکے دلوائے اور وزارتوں سے حزب اللہ سے منسلک اداروں کو پیسے منتقل کیے'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'تازہ پابندیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان کے وہ سیاست دان جنہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ کو سیاسی اور مالی فائدہ پہنچایا وہ بھی اسی طرح ذمہ دار ہیں جس طرح حزب اللہ کے اپنے اراکین یا کرپٹ کاروباری افراد اور منی لانڈرنگ کرنے والے افراد ہیں، جنہوں نے دہائیوں سے اس دہشت گرد تنظیم کی معاونت کی'۔

امریکا نے کہا کہ 'حزب اللہ اپنی بقا کے لیے لبنان کے کرپٹ سیاسی نظام پر انحصار کر رہی ہے، جو کوئی حزب اللہ کو اپنے سیاسی یا معاشی مفادات کو توسیع دینے میں مدد کر رہا ہے وہ مؤثر حکمرانی کو ختم کر رہا ہے اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کر رہا ہے'۔

محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ 'لبنان کے عوام بہتر کے مستحق ہیں اور امریکا کرپشن اور سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے ان کے ساتھ تعاون جاری رہے گا'۔

لبنان کے سیاسی حالات پر بیان میں کہا گیا ہے کہ لبنان کے سیاست دانوں نے عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کوتاہی کی اور ایک ایسا سیاسی نظام تشکیل دیا جس سے ان کے نجی مفادات میں اضافہ ہوا۔

خیال رہے کہ لبنان میں 4 اگست کو بیروت کی بندرگاہ میں ہونے والے خوفناک دھماکے سے190 سے زائد افراد ہلاک اور 6 ہزار زخمی ہوگئے تھے۔

بعد ازاں ملک میں حکمران طبقے کے خلاف شدید احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعظم حسن دیب اور ان کی کابینہ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: بیروت دھماکے: لبنانی وزیراعظم کابینہ سمیت مستعفی

اس سے قبل لبنان کے شہر بیروت میں ہزاروں مشتعل افراد نے وزارت خارجہ اور وزارت اقتصادیات کے دفاتر پر دھاوا بول دیا تھا۔

مظاہرین نے وسطی بیروت میں پارلیمنٹ کی عمارت تک جانے کی کوشش کی اور اس دوران مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی تھی۔

لبنان کے سیاسی بحران میں اس وقت بہتری آئی جب فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کی مداخلت سے رواں ماہ کے اوائل میں سفارت کار مصطفیٰ ادیب کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔

مصطفیٰ ادیب نے منصب سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ 'ہمارے ملک کے لیے بہت محدود موقع ہے اور جو مشن میں نے قبول کیا ہے اس پر تمام سیاسی فورسز کا اتفاق ہے'۔

نئے وزیراعظم نے باصلاحیت ٹیم کے انتخاب کا عزم کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مذاکرات اور وعدوں کا وقت نہیں ہے بلکہ سب کے تعاون سے کام کرنے کا وقت ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں