اسلام آباد: فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق چار بلوں پر تعطل کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے قانون سازوں پر مشتمل ’غیر رسمی‘ کمیٹی کا اجلاس پیر کو متوقع ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی میں وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے محسن شاہنواز رانجھا اور پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائک اور شیری رحمٰن شامل ہیں۔

مزیدپڑھیں: ایف اے ٹی ایف جون میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا

ابتدائی طور پر 24 رکنی کمیٹی جس کی سربراہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔

حتمی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ان بلوں کو پیش کرنے سے قبل تحریک انصاف کی حکمران و اس کی اتحادی جماعتوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز کے ممبران بلوں کی جانچ کریں گے۔

تاہم قومی احتساب آرڈیننس میں ترمیم کرنے کے مجوزہ بل پر تعطل کی وجہ سے حزب اختلاف کے ممبروں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اس کے بعد کمیٹی تحلیل ہوکر ہوگئی۔

ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے مداخلت کی اور حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو غیر رسمی گفتگو کرنے پر راضی کیا تاکہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق ضروری قانون سازی کو حتمی شکل دی جاسکے۔

پاکستان کو 30 ستمبر کو ایف اے ٹی ایف کو مکمل رپورٹ پیش کرنا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ احتساب کا قانون نہیں بلکہ شہری آزادی سے متعلق معاملات ہیں جو معاملے پر پیشرفت میں رکاوٹ ہیں جس کی وجہ سے ممبران اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکے۔

مزیدپڑھیں: نیب، ایف اے ٹی ایف قانون سازی پر بات چیت ڈیڈ لاک کا شکار

انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ 13 بلوں میں سے دوسرے بل اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ (اے ایم ایل اے)، فوجداری کارروائی ضابطہ (سی آر پی سی) اور متروکہ پراپرٹیز اور کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ میں ترمیم کے بارے میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق متروکہ پراپرٹیز اینڈ کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بلوں کا تقریبا تصفیہ ہوچکا تھا لیکن اے ایم ایل اے اور سی آر پی سی کے ترمیمی بلوں پر تعطل برقرار تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں کے ممبران سی آر پی سی ترمیمی بل کی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ یہ شہریوں کی رازداری میں دخل اندازی کے لیے تفتیشی افسر کو اجازت دینے کے مترادف ہے۔

حزب اختلاف بل کی ازسر نو تشکیل کرنا چاہتی ہے تاکہ 'خفیہ آپریشن، مواصلات میں رکاوٹ پیدا کرنے اور کمپیوٹر سسٹم تک رسائی' کی شرائط کی وضاحت ہوسکے اور مجرموں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے خلاف بھی اس کا غلط استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک اے ایم ایل اے میں ہونے والی ترامیم کا تعلق ہے ذرائع نے بتایا کہ مجوزہ مسودے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

مزیدپڑھیں: ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کیلئے دباؤڈالنے والوں میں بھارت بھی شامل ہے، فضل الرحمٰن

ذرائع نے بتایا کہ کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ چونکہ نیب منی لانڈرنگ کے الزام میں کسی مشتبہ شخص کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتا ہے لہذا اے ایم ایل اے کے اندر بیورو 'اے ایم ایل اے کے شیڈول جرائم' میں کارروائی کرنے والی ایجنسیوں کو فہرست سے خارج کرسکتا ہے۔


یہ خبر 12 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں