لاہور ہائی کورٹ کا سینئر پولیس افسران کو رات میں گشت کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2020
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ایڈووکیٹ ندیم سرور کی موٹروے اجتماعی زیادتی کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست کی سماعت کررہے تھے۔ فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ایڈووکیٹ ندیم سرور کی موٹروے اجتماعی زیادتی کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست کی سماعت کررہے تھے۔ فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز

لاہور: لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے انسپیکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کو حکم دیا کہ وہ صوبے کے ہر ضلع میں سینئر پولیس افسران کے دو گھنٹے تک رات میں گشت کو یقینی بنائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، ایڈووکیٹ ندیم سرور کی موٹروے اجتماعی زیادتی کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست کی سماعت کررہے تھے۔

قبل ازیں ڈی آئی جی (قانونی) جواد ڈوگر نے پولیس گشت کے موجودہ نظام کے بارے میں عدالت میں رپورٹ پیش کی۔

چیف جسٹس قاسم خان نے ہدایت کی کہ ایک سینئر افسر کی براہ راست نگرانی میں تمام اضلاع میں یومیہ رات 11 بجے سے ایک بجے تک گشت ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس سے 'موٹر وے ریپ' پر از خود نوٹس لینے کی استدعا

جج نے اگلی سماعت پر پیٹرولنگ میکانزم سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

ادھر سی سی پی او عمر شیخ نے چیف جسٹس قاسم خان سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور انہیں اجتماعی زیادتی کے معاملے کی تحقیقات میں پیشرفت سے آگاہ کیا تاہم واپسی پر سی سی پی او نے میڈیا کے سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا۔

تبادلے کے خلاف درخواست پر نوٹسز جاری

چیف جسٹس محمد قاسم خان نے بدھ کو آئی جی اور لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر کے قبل از وقت تبادلے کو چیلنج کرنے والی درخواست پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹسز جاری کردیے۔

چیف جسٹس نے مدعا علیہان حکومتوں کو دو ہفتوں میں اپنے جوابات پیش کرنے کی ہدایت کی۔

مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے بیرسٹر ملک محمد احمد خان نے درخواست دائر کی تھی کہ پنجاب کے سابق صوبائی پولیس آفیسر شعیب دستگیر اور سابق سی سی پی او ذوالفقار حمید کی برطرفی غیر قانونی تھی اور پولیس آرڈر 2002 کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: موٹر وے ریپ کیس: پولیس کو جائے وقوع سے کیا کچھ ملا؟

درخواست میں کہا گیا کہ پنجاب میں سینئر پولیس عہدیداروں کی غیر مناسب اور قبل از وقت منتقلی ایک معمول بن گئی ہے اور حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں 6 آئی جی پیز کا تقرر کیا ہے، اسی طرح اسی عرصے میں تین سی سی پی او بھی مقرر کیے گئے ہیں۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ تبدیل کیے جانے والے ایگزیکٹو جو بنیادی طور پر قوانین کے نفاذ کے لیے پولیس فورس پر انحصار کرتے ہیں وہ آئین سے حاصل کردہ ضمانتوں کو مؤثر طریقے سے یقینی نہیں بنا سکتے۔

درخواست میں عدالت سے سابق آئی جی پی اور سی سی پی او کی برطرفی اور نئے عہدے داروں کی تقرریوں سے متعلق نوٹیفیکیشن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں