ملک ریاض کے داماد کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2020
عدالت نے مصطفیٰ کمال، فضل الرحمٰن اور دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 9 اکتوبر تک موخر کردی — فائل فوٹو /  اے ایف پی
عدالت نے مصطفیٰ کمال، فضل الرحمٰن اور دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 9 اکتوبر تک موخر کردی — فائل فوٹو / اے ایف پی

احتساب عدالت نے کراچی میں کثیر المنزلہ عمارت کے لیے بحریہ ٹاؤن کی زمین میں مبینہ طور پر غیر قانونی کمرشل اراضی کے اختلاط سے متعلق کیس میں رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے داماد زین ملک کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

کراچی کے سابق میئر اور پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال، کراچی ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کے سابق افسر فضل الرحمٰن، سابق ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ افسر افتخار قائم خانی اور دیگر کو اس کیس میں ٹرائل کا سامنا ہے۔

ہفتہ کو معاملہ احتساب عدالت تھری کی جج کے سامنے پیش کیا گیا، مصطفیٰ کمال اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے تاہم زین ملک غیر حاضر رہے۔

ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ زین ملک علاج کے سلسلے میں برطانیہ میں موجود ہیں اور ان کی جانب سے درخواست کی گئی ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ جس طرح پارک لین ریفرنس میں جس طرح سابق صدر آصف علی زرداری کا بیان ریکارڈ کیا گیا تھا اسی طرح زین ملک کا بیان بھی برطانیہ سے ہی ریکارڈ کیا جائے۔

تاہم جج نے درخواست خارج کردی اور زین ملک کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک ریاض کا داماد ساڑھے 9 ارب روپے کی پلی بارگن پر مقدمات سے بری

کیس کے تفتیشی افسر کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ زین ملک کو گرفتار کرکے اگلی سماعت میں عدالت میں پیش کریں۔

عدالت نے مصطفیٰ کمال، فضل الرحمٰن اور دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 9 اکتوبر تک موخر کردی۔

واضح رہے کہ جون 2019 میں احتساب عدالت نے اس وقت کے میئر کراچی مصطفیٰ کمال، ڈی سی او فضل االرحمٰن، ای ڈی او افتخار قائم خانی، ڈسٹرکٹ افسر ممتاز حیدر، ایڈیشنل ڈی او سید نشاط علی اور کلفٹن کے سب رجسٹرار ٹو نذیر زرداری کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کا ریفرنس منظور کر لیا تھا۔

ریفرنس میں ڈی جے بلڈرز اینڈ ڈیولپرز سے منسلک 5 بلڈرز زین ملک، محمد داؤد، محمد یعقوب، محمد عرفان اور محمد رفیق کو بھی ملزم نامزد کیا گیا تھا۔

ریفرنس کے مطابق 1982 میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے ہٹائے گئے اخبار فروشوں کے لیے کوٹھاری پریڈ سے متصل دو ایمنٹی پلاٹوں پر 198 اسٹالز/دکانیں قائم کی تھیں، جبکہ اسی جگہ پر چار کمرشل پلاٹس بھی نکالے گئے تھے جن میں سے ہر پلاٹ 255.55 گز پر مشتمل تھا۔

ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ ڈی جے بلڈرز نے چاروں کمرشل پلاٹ اور اخبار فروشوں کے 198 اسٹالز خرید لیے، تاہم یہ دو ایمنٹی پلاٹ کبھی بلڈرز کے نام پر منتقل نہیں کیے گئے۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ملک ریاض کے بیٹے اور داماد کے خلاف ریفرنس دائر

نیب نے مزید الزام لگایا تھا کہ ڈی جے بلڈرز سے منسلک زین ملک اور دیگر نے مصطفیٰ کمال اور فضل الرحمٰن کی مدد سے غیر قانونی طور پر کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی اجازت کے بغیر غیر قانونی طور پر 102 اسٹالز بحریہ ٹاؤن پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام پر منتقل کروائے۔

ریفرنس میں دعویٰ کیا گیا کہ رجسٹریشن ڈیڈ میں ان اسٹالز کی قیمت صرف 26 کروڑ روپے دکھائی گئی حالانکہ ان کی مارکیٹ قیمت 2 ارب 10 کروڑ روپے سے زائد تھی۔

نیب نے الزام لگایا تھا کہ پلاٹ کے اختلاط سے زین ملک نے فائدہ اٹھایا۔

خیال رہے کہ رواں ماہ احتساب عدالت نے زین ملک کی بریت کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی تھی اور انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ شاید نیب کے ساتھ پلی بارگین کر لیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں