کوئٹہ میں منعقد ایک مشاورتی اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کابینہ نے معلومات تک رسائی کے حق کے ڈرافٹ کی منظوری دے دی ہے لیکن ابھی تک اس کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے آئی ڈی بلوچستان کے زیر اہتمام نیشنل انڈومنٹ فنڈ فار ڈیموکریسی کے اشتراک سے منعقدہ مشاورتی اجلاس میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے سینئر صحافیوں اور ماہر وکلا نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں ایف سی اہلکار کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت ناقابل قبول ہے، شیریں مزاری

انہوں نے اس مسودے کے بلوچستان کا قانون بننے تک مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

اے آئی ڈی بلوچستان کے سربراہ میر بہرام لہری نے شرکا کو تمام اسٹاک ہولڈرز سے مشورے کے بعد سفارشات کی تیاری کے لیے اپنی تنظیم کی کوششوں سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بل کے مسودے پر سول سوسائٹی کے تحفظات کے بارے میں بھی بات کی۔

شرکا نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے یہ بل منظور کر لیا ہے لیکن اس نے قانون تک رسائی کا حق نہیں دیا ہے۔

سینئر صحافیوں نے مشورہ دیا کہ بل کو صوبائی اسمبلی میں منتقل کرنے سے پہلے قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات سے رابطہ کیا جائے اور سفارشات اراکین کو پیش کریں۔

سینئر صحافی ظفر بلوچ نے کہا کہ حکومت بلوچستان قانون پاس کرے لیکن اسمبلی سے منظوری حاصل کرنے سے پہلے اسے سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندوں کے سامنے پیش کرے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: ضلع مستونگ میں کالعدم تنظیم کا 'کمانڈر' ہلاک

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس (بی یو جے) کے جنرل سیکریٹری رشید بلوچ نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین سے رابطوں کو تیز کیا جائے اور وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے حق اطلاعات ایکٹ کے مسودے کو ان کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

سینئر صحافی قدیر رند نے کہا کہ جدید اور عصری انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو اس قانون کا حصہ ہونا چاہیے۔

ماہر وکیل میر بہرام بلوچ نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ بلوچستان کا حق اطلاعات بل شفافیت اور احتساب کے آزاد نظام کے ساتھ ایک بہتر بل ثابت ہو گا۔

اجلاس میں شاہنواز بلوچ، اکبر نوٹ زئی، قدیر رند، میر بہرام بلوچ، صادق بلوچ اور عادل جہانگیر نے بھی شرکت کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں