تفتان بارڈر سے غیر قانونی ہجرت میں اضافہ

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2020
ان افراد کو گرفتار کرکے واپس پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا—فائل فوٹو: ڈان
ان افراد کو گرفتار کرکے واپس پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا—فائل فوٹو: ڈان

چاغی: پاکستان سے بہتر معاش کی تلاش میں غیر قانونی طور پر ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور رواں برس اگست اور ستمبر کے مہینے میں یورپی ممالک جانے کے خواہش مند 7 ہزار 984 پاکستانی مہاجرین کو ایران کے مختلف علاقوں سے گرفتار کرنے کے بعد ملک بدر کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں سرکاری ذرائع نے بتایا کہ روز مرہ کی بنیاد پر ان افراد کو لیویز فورسز کے عہدیداروں کے حوالے کیا گیا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے تفتیش کے بعد قانونی چارہ جوئی کی گئی۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ تفتان-میر جاوہ سرحد سے غیرقانونی پاکستانی مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ رواں ماہ اکتوبر میں بھی جاری ہے، مزید یہ کہ ان مہاجرین میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: تفتان کا قرنطینہ مرکز، افسوسناک حالت کی داستان

لیویز عہدیداروں کے مطابق ان مہاجرین میں اکثریت پنجاب کے کچھ علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہے جبکہ ان میں کچھ افراد آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں جو ایران اور ترکی کے راستے یورپ جانے کی کوشش کررہے تھے، یہ پوری کارروائی انسانی اسمگلروں کی ایک چین کے ذریعے انجام دی جاتی ہے۔

لیویز فورس کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے پاس حراستی مرکز میں زیادہ گنجائش نہ ہونے کے باعث روزانہ کی بنیاد پر ملک بدر کیے جانے والے افراد کو محدود تعداد میں وصول کیا جاتا ہے، یہ افراد ضلع چاغی میں پاک ایران سرحد پر واقع تفتان راہداری گیٹ سے واپس بھیجے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ

ڈان کو ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق ایرانی حکام کی جانب سے اگست کے مہینے میں 2 ہزار 955 جبکہ ستمبر میں 5 ہزار 29 پاکستانی مہاجرین کو ملک بدر کیا گیا۔

ذرائع کا ماننا ہے کہ اسمگلرز چاغی، واشوک، خاران، پنجگور اور اس سے ملحقہ اضلاع کے ذریعے اپنا کاروبار چلارہے ہیں اور ان ہی راستوں کے ذریعے سے انسانی اسمگلنگ بڑھ رہی ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے ان اضلاع میں کارروائی کرکے درجنوں تارکین وطن اور کچھ اسمگلرز کو گرفتار کرکے انسانی اسمگلنگ کی کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔


یہ خبر 5 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں