تفتان کا قرنطینہ مرکز، افسوسناک حالت کی داستان

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2020
قرنطینہ میں 14 روز گزارنے والے اشتیاق حسین کا کہنا تھا کہ وہاں عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔ — فائل فوٹو:اے ایف پی
قرنطینہ میں 14 روز گزارنے والے اشتیاق حسین کا کہنا تھا کہ وہاں عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔ — فائل فوٹو:اے ایف پی

ایران سے واپس آنے والے کئی سو زائرین تفتان پر غلیظ ترین قرنطینہ کیمپوں میں محدود طبی سہولیات کے ساتھ وقت گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ انہیں خدشہ ہے کہ ابتر صورتحال سے وائرس مزید پھیلے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ایران سرحد کے ساتھ تفتان کیمپ میں مقیم سابق اور موجودہ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ قرنطینہ کیمپ میں پانی اور فلش کرنے کے لائق واش رومز کی سہولت میسر نہیں جسے زائرین خود چند دنوں بعد صاف کرتے ہیں۔

بدھ کے روز بلوچستان حکومت نے ایران سے واپس آنے والے ایک ہزار 652 افراد کو 14 روز تک تفتان میں قرنطینہ میں رکھنے کے بعد ان کے صوبے بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیں: 158 ممالک میں پھیلے کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 8 ہزار 810 ہوگئی

ان میں سے ایک ہزار 230 کا تعلق پنجاب، 232 کا خیبر پختونخوا اور 190 کا گلگت-بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سے تھا۔

اس سے ایک روز قبل تقریباً 700 زائرین کو 18 بسوں میں سندھ روانہ کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز شائع ہونے والی ڈان کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2 ہزار سے زائد زائرین اور تاجر تفتان میں قرنطینہ میں ہیں اور وہ 14 روز ی مدت ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد انہیں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں نوول کورونا وائرس کے زیادہ تر کیسز ایران سے آنے والے زائرین میں سامنے آئے۔

پاکستان کی ایران کے ساتھ 960 کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کا مرکزی کراسنگ پوائنٹ تفتان ہے۔

تفتان میں قرنطینہ میں موجود ایک شخص نے ٹیلی فون پر انٹرویو کے دوران نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’میں 7 روز سے ایک ہی ماسک استعمال کر رہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں یہاں آیا تھا تو ہوسکتا ہے مجھے وائرس نہ ہو تاہم اگر مجھ میں اب وائرس کی تصدیق ہو تو میرے لیے یہ حیرت کی بات نہیں‘۔

ایران میں گزشتہ ماہ کورونا وائرس سے 2 ہلاکتیں سامنے آنے کے بعد ملک میں کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔

تفتان سرحد کو 16 مارچ کو بند کیا گیا تھا تاہم ایران میں مذہبی مقامات کا دورہ کرنے والے پاکستانی زائرین کو 2 ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رکھا جارہا ہے۔

اس کے بعد انہیں ان کے رہائشی علاقوں میں مزید 2 ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رہنا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیا کورونا وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا؟ سائنسدانوں نے جواب دے دیا

تفتان کو کئی سالوں پہلے زائرین کے واپس آنے پر آرام گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاہم وائرس کی وجہ سے یہاں رش لگ گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ عوام کوریڈورز میں زمین پر سونے پر مجبور ہے جبکہ لگائے گئے خیمے بھر چکے ہیں۔

اس وقت تک بیمار زائرین کو صحت مند زائرین سے الگ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔

’جانوروں سے بھی بدتر سلوک‘

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ عوام نے وہاں رواں ہفتے اپنی بہتر حالت کے لیے احتجاج کیے جبکہ چند بھاگ اٹھے۔

سیکیورٹی فورسز کو انتباہی فائرنگ کرنی معاملات کو کنٹرول میں لانے کے لیے۔

تہران میں ایک یونیورسٹی کے طالب علم اشتیاق حسین ان میں سے ایک ہیں جو تفتان سے آئے۔

ان کا کبھی کورونا وائرس کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے اور انہیں خراب کھانا کھانے اور سخت ٹھنڈے کیمپوں میں تھوڑے سے کمبلوں کے ساتھ گزارا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے‘۔

تفتان اسسٹنٹ کمشنر نجیب قمبرانی کا کہنا تھا کہ کیمپ کے دور دراز علاقے میں ہونے کی وجہ سے وہاں سہولیات فراہم کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تمام ممکنہ سہولیات فراہم کر رہے ہیں‘۔

تاہم قرنطینہ میں رہنے والے نعمت علی خاکی کا کہنا تھا کہ حالات ناقابل قبول ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں صفائی کا کوئی انتظام نہیں اور اتنے زیادہ لوگ ایک ساتھ جمع ہوگئے ہیں کہ لوگ ایک کے اوپر ایک ہوگئے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے علاج کے لیے مؤثر دوا دریافت؟

وہ اب بھی اپنے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا تھا کہ ’حکام تفتان پر زائرین کو کھانا، سہولیات، رہائش طبی معاونت اور تحفظ فراہم کر رہے ہیں‘۔

ایک ٹویٹ میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’تمام صوبوں کے نمائندوں سے درخواست کروں گا کہ تفتان کے بارے میں بات کرنے سے پہلے سوچیں، کیا آپ نے اپنے لوگوں کے دیکھنے کے لیے یا مدد کے لیے کسی کو بھیجا ہے؟‘۔

جنوبی ایشیا میں سہولیات پر ماہرین کو تشویش

کورونا وائرس کے کیسز کی جنوبی ایشیا میں تعداد بڑھنے پر ماہرین کو خدشہ ہے کہ غیر محفوظ ٹیسٹنگ اور قرنطینہ سینٹرز گنجان آباد علاقے میں مزید مسائل پیدا کردیں گے۔

خطے کے حکام مسافروں کو خود آئی سولیٹ کرنے یا قرنطینہ سینٹرز میں رہنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جس کے بارے میں کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ پہلے ہی خراب حالت میں ہیں اور جہاں صفائی کی صورتحال ابتر ہے۔

عوامی صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں خراب سہولیات کی وجہ سے وائرس کا پھیلاو مزید بڑھ سکتا ہے اور حکام کو چاہیے کہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو وہ خود کو گھروں میں قرنطینہ میں رکھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں