بغاوت کے مقدمے کا تنازع نیا موڑ اختیار کرگیا

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2020
مذکورہ مقدمے میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم بھی نامزد ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
مذکورہ مقدمے میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم بھی نامزد ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر اور دیگر 40 مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف درج ایف آئی آر کا تنازع اس وقت ایک نیا موڑ اختیار کرگیا جب اس کا شکایت کنندہ فرد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کارکن نکلا، جس کا مجرمانہ ریکارڈ بھی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حالیہ پیش رفت میں حکومت پنجاب نے راجا فاروق حیدر کا نام ایف آئی آر سے ختم کرنے کا فیصلہ بظاہر مختلف حلقوں کی جانب سے کی جانے والی اس تنقید کے بعد کیا جو دیکھتے ہیں کہ یہ قدم کشمیر کاز کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ پیر کو نئے ’متنازع‘ چیف کے ماتحت لاہور پولیس نے نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز، راجا فاروق حیدر اور دیگر اعلیٰ لیگی قیادت کے خلاف بغاوت اور دیگر الزامات کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی تھی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف مقدمہ ریاست نہیں ایک شہری کی درخواست پر درج کیا، پولیس

تاہم شکایت کنندہ بدر رشید عرف ہیرا کا مجرمانہ ریکارڈ اور پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ تصاویر سامنے آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے سب سے پہلے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور پر لیگی قیادت کے خلاف مقدمہ درج کروانے کا الزام لگایا۔

بدر رشید کے بارے میں یہ کہا جارہا کہ وہ پی ٹی آئی لیبر ونگ کا عہدیدار ہے۔

حیران کن طور پر شاہدرہ میں خورشید پارک کے رہائشی بدر رشید کے خلاف شاہدرہ پولیس کی جانب سے اقدام قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ ہے جبکہ اسی تھانے میں اب وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں مدعی ہیں۔

اس کے علاوہ وہ شارق پور (ضلع نانکانہ) میں غیرقانونی اسلحہ رکھنے اور اولڈ انارکلی تھانے میں پولیس افسر پر حملے کے الزام میں بھی ایف آئی آرز میں نامزد ہیں۔

بدر رشید جو کچھ کیسز میں گرفتار بھی ہوا چکا ہے، اس نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر یونین کونسل کے چیئرمین کے لیے انتخاب بھی لڑا تھا۔

اگرچہ پنجاب اور وفاقی حکومتیں خود کو اس ایف آئی آر کے درج کروانے سے دور رکھ رہی ہیں تاہم کچھ سوالات اٹھتے ہیں کہ کیسے ایک اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو تحریک انصاف حکومت کی اعلیٰ شخصیت یا اختیارات رکھنے والی کسی اور کے حکم کے بغیر 2 سابق وزرائے اعظم، آزاد کشمیر کے وزیراعظم، 3 سابق فوجی افسران، سابق گورنر سندھ، سابق وزرائے دفاع و داخلہ، سابق وزیر قانون پنجاب اور دیگر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا اختیار دیا گیا؟

اس کے علاوہ تھانے عموماً تب تک مقدمہ درج نہیں کرتے جب تک وہ ان کی حدود میں نہ ہو۔

نواز شریف نے اسلام آباد میں منعقد آل پارٹی کانفرنس (اے پی سی) اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں بالترتیب 20 ستمبر اور یکم اکتوبر کو تقاریر کی لیکن مقدمہ شاہدرہ تھانے میں درج ہوا۔

ان سوالات کے جوابات کے لیے ڈان نے کیپٹیل سٹی پولیس افسر عمر شیخ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

سی سی پی او کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ جس میں واضح کیا گیا کہ (نواز شریف و دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف) ایف آئی آر ریاست یا کسی ریاستی ادارے کے حکم پر نہیں بلکہ ایک شہری بدر رشید کی شکایت پر درج کی گئی۔

اس میں کہا گیا کہ ’پولیس نے کیس میں قانون کی تمام متعلقہ دفعات لگائی ہیں، کیس میں میرٹ پر تفتیش جاری ہے اور مذکورہ الزام میں نامزد کوئی بھی ملزم ملوث پایا گیا تو وہ مزید قانونی کارروائی کا سامنا کرے گا، مزید یہ کہ مقدمے میں انصاف کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا‘۔

دوسری جانب ڈان سے گفتگو میں پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ ’ہم تفتیشی مرحلے پر ایف آئی آر سے آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر کا نام نکالیں گے تاہم کیس میں نامزد دیگر افراد کے خلاف قانون کے مطابق تحقیقات ہوگی‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا بزدار انتظامیہ نے راجا فاروق حیدر کے نام کو نکالنے کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ناپسندیدگی کے اظہار کے بعد کیا تو اس پر انہوں نے ’نہیں‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا اس رجسٹریشن میں کوئی کردار نہیں چونکہ پولیس نے ایک شہری کی شکایت پر یہ درج کی‘۔

فیاض الحسن چوہان نے اس رپورٹ کو بھی مسترد کیا کہ بدر رشید عرف ہیرا پی ٹی آئی کا عہدیدار تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: نواز شریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

انہوں نے کہا کہ ’شکایت کنندہ کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں، بہت سے لوگ ہیں جن کی پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ تصاویر ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکنان بن گئے‘۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ بدر رشید پی ٹی آئی یو سی چیئرمین کے ٹکٹ ہولڈر تھے اور ان کے بھائی 15 ایف آئی آرز میں نامزد کیے گئے تھے۔

انہوں نے الزام لگایا ’بدر رشید کا بھائی گورنر پنجاب چوہدری سرور کی اہلیہ کی این جی او میں کام کرتا ہے جبکہ چوہدری سرور جو فیڈریشن کی نمائندگی کرتے ہیں انہوں نے اس ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کیس وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر درج نہیں ہوسکتا، کسی ایس ایچ او میں ہمت نہیں کہ وہ ملک کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بغیر حکومتی حکم کے ایف آئی آر درج کرے‘۔

مزید برآں چوہدری محمد سرور نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ بدر رشید کی تصاویر صرف ان کے ساتھ نہیں بلکہ دیگر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں، وزیر ریلوے شیخ رشید اور اسٹیبلشمنٹ کے کچھ افراد کے ساتھ ہے لیکن ’اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے کیونکہ سیاستدان روزانہ کئی لوگوں سے ملتے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں