اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل: ناصر جمشید کو برطانیہ سے ڈی پورٹ کیے جانے امکان

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2020
پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی ناصر جمشید پر 10سال کی پابندی عائد کردی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی ناصر جمشید پر 10سال کی پابندی عائد کردی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ قومی ٹیم کے سابق اوپننگ بلے باز کو آنے والے دنوں میں برطانیہ سے بری کیا جا سکتا ہے جس کے بعد ان کو پاکستان ڈی پورٹ کیے جانے کا امکان ہے۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم کورٹ نے پاکستان سپر لیگ اور بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے پر رواں سال ناصر جمشید کو 17 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل: ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد

17ماہ کی سزا کے باوجود سابق اوپننگ بلے باز کی 21 اکتوبر کو ضمانت پر رہائی متوقع ہے اور ممکنہ طور پر انہیں پاکستان ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔

ناصر جمشید کی بیوی اور بیٹی دونوں برمنگھم میں ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں پاکستان ڈی پورٹ کیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔

کرکٹر کی بیوی سمارا افضل برطانیہ میں پیدا ہوئیں اور ناصر جمشید ان سے شادی کی وجہ سے وہاں کے ویزے پر انگلینڈ میں موجود تھے اور فروری میں ان کے ویزے کی تجدید ہونی تھی تاہم انہیں سزا سنا دی گئی۔

معروف ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق سزا کی وجہ سے ان کے ویزے کی تجدید کے عمل کو مؤخر کردیا گیا لیکن اب عدالت سے رہائی کے بعد انہیں ڈی پورٹ کیے جانے کے حوالے سے اعلامیہ بھیجا جا چکا ہے۔

ناصر جمشید نے ابتدائی طور پر برطانوی عدالت میں اپنا جرم قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ وہ یا ان کے وکیل ویڈیو ریکارڈ سے بے خبر ہیں البتہ جب عدالت میں ان کی، ان کے ساتھیوں اور ایک پولیس کے خفیہ ایجنٹ کی گفتگو کی ریکارڈنگ چلائی گئی تو انہوں نے اپنا جرم قبول کر لیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل: ناصر جمشید نے اپنا جرم قبول کر لیا

معاملے کی سماعت 60 دن تک جاری رہی جس کی وجہ سے ان کے ساتھ سخت رویہ روا رکھا گیا کیونکہ قانونی ماہرین کا ماننا تھا کہ اگر پاکستانی کرکٹر نے پہلے ہی مرحلے میں اپنا جرم تسلیم کر لیا ہوتا تو انہیں باآسانی 12ماہ سے کم سزا ملتی۔

برطانیہ کے قانون کے تحت کسی بھی غیرملکی شہری کو اگر 12 ماہ سے زیادہ کی سزا ہوتی ہے تو اسے ملک سے ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔

توقع یہی ہے کہ آئندہ ہفتے ناصر جمشید کو فوری طور پر برطانیہ سے ڈی پورٹ کردیا جائے گا جس کے بعد وہ اپنا بقیہ مقدمہ پاکستان سے ہی لڑیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے انسدادِ بدعنوانی ٹریبونل نے بھی اسپاٹ فکسنگ کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کرکٹر ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد کردی تھی۔

آخر مقدمہ کیا تھا؟

2017 میں کھیلے گئے پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے پہلے دن ہی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر اسلام آباد یونائیٹڈ کے کھلاڑیوں شرجیل خان اور خالد لطیف کو وطن واپس بھیج دیا گیا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہ زیب حسن اور محمد عرفان کو بھی معطل کردیا تھا جبکہ عرفان نے بکیز کی جانب سے رسائی کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے اس بارے میں اطلاع نہ دینے کا اقبال جرم کیا تھا جس پر انہیں ایک سال کیلئے معطل کرتے ہوئے 10لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں ناصر جمشید کو 17 ماہ قید

قومی ٹیم کے اوپنر ناصر جمشید کو بھی اسپاٹ فکسنگ کیس میں ملوث ہونے کے شبے میں برطانیہ میں تفتیشی اداروں نے یوسف نامی بکی کے ہمراہ گرفتار کیا تھا لیکن انہیں ضمانت پر رہا کر کے پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا تھا۔

پی سی بی کے سابق چیئرمین شہریار خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ناصر جمشید کے انگلش بکیز کے ساتھ روابط ہیں اور انہوں نے ہی اس مقدمے کے 2 مرکزی ملزمان خالد لطیف اور شرجیل خان کا بکیز سے رابطہ کروایا تھا۔

2018 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے انسدادِ بدعنوانی ٹریبونل نے اسپاٹ فکسنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کرکٹر ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد کردی تھی جبکہ کچھ عرصے بعد برطانیہ میں بھی ان پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

ادھر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ اور پاکستان سپر لیگ میں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے پر انہیں 17ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔

مانچسٹر کی کراؤن کورٹ نے ناصر جمشید کو ایک سال 5 ماہ (17 ماہ)، اور ان کے ساتھیوں یوسف انور کو 3 سال 4 ماہ اور محمد اعجاز کو 2 سال اور 6 ماہ کی قید سنائی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں