لکھاری آئی بی اے یونیورسٹی میں سوشل سائنسز اور لبرل آرٹ پڑھا رہے ہیں
لکھاری آئی بی اے یونیورسٹی میں سوشل سائنسز اور لبرل آرٹ پڑھا رہے ہیں

شاید ہی کوئی حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ انضمام کے واضح مطالبے کو نظر انداز کرسکتی ہے۔ گلگت بلتستان ایک ایسے خطے کی کیس اسٹڈی ہے جس کے سیاسی حقوق کا کئی دہائیوں تک انکار کیا جاتا رہا ہے۔

کشمیر کی ڈوگرہ حکومت سے آزادی کے بعد سے گلگت بلتستان نے اپنے حقوق کے لیے پُرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ پہلے یہ آمرانہ ڈوگرہ راج سے آزادی کی جنگ تھی جو بعد میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے عائد کردہ نوآبادیاتی دور کے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے خاتمے کی کوششوں میں تبدیل ہوگئی۔

ایف آر سی کی مخالفت سب سے پہلے 1950ء کی دہائی کے وسط میں شروع ہوئی۔ 1956ء میں بننے والی گلگت لیگ نے اصلاحات اور ایف آر سی کے خاتمے کا مطالبہ کیا لیکن 1958ء کے مارشل لا کے تحت اس پر پابندی عائد کردی گئی۔

1960ء کی دہائی میں دیگر شہروں میں تعلیم اور نوکریوں کے لیے جانے والے گلگت کے نوجوانوں نے مختلف سیاسی تنظیمیں قائم کیں اور ایف آر سی اور جاگیر داری نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اس ضمن میں 2 سیاسی جماعتوں یعنی گلگت بلتستان لداخ جمہوری محاذ اور تنظیم ملت نے عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا تاہم ان دونوں جماعتوں پر پابندی عائد کردی گئی۔

جنوری 1971ء میں ضلعی کمشنر نے مقامی افسر کے بچے کو پاس نہ کرنے پر ایک اسکول پرنسپل کو برخاست کردیا۔ اس کے ردِعمل میں گلگت میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے جن کی قیادت تنظیم ملت کر رہی تھی۔ یہ مظاہرے ہنگامہ آرائی میں تبدیل ہوگئے اور تنظیم ملت کی قیادت کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔

لیکن 1971ء کا یہ احتجاج لاحاصل نہیں رہا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیرِاعظم بنے تو انہوں نے گلگت بلتستان میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ ایف آر سی، جاگیردارانہ نظام اور پولیٹیکل ایجنسی کے کردار کو ختم کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تنظیم ملت کی قیادت کو رہا کردیا اور اصلاحات کے عمل میں ان کے کچھ مطالبات کو بھی شامل کیا۔

گلگت بلتستان میں اصلاحات کا آغاز کرنے کا سہرا بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سر ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو نے 1994ء میں خطے میں جماعتی بنیاد پر انتخابات متعارف کروائے۔ 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے گلگت بلتستان کو خود مختار اور بااختیار بنانے سے متعلق ایک پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ اگرچہ یہ پیکیج امیدوں کے مطابق نہیں تھا لیکن پھر بھی اس سے خطے کو ایک شناخت ضرور حاصل ہوئی اور مقامی افراد میں اپنے سیاسی حقوق کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوا۔

2009ء کے بعد سے خطے کے نوجوان اور سول سوسائٹی، گلگت بلتستان کے سیاسی مسائل، آئینی حیثیت، مسئلہ کشمیر سے اس کے تعلق اور اس کے انضمام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے ممکنہ قانونی راستوں کے بارے میں بحث اور مباحثے کر رہے ہیں۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے گندم پر سبسڈی ختم کرنے یا ٹیکس کے نفاذ جیسے معاملے پر گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی تمام تر لسانی اور مذہبی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر سخت احتجاج کیا۔

2015ء میں گلگت بلتستان اسمبلی میں بہت محتاط الفاظ میں تیار کی گئی ایک قرارداد پیش ہوئی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گلگت بلتستان کو اس وقت تک پاکستان میں ضم کرکے رکھے جب تک کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نہ نکل آئے۔ سیاسی بلوغت، آگاہی، تعلیم یافتہ طبقے کے آگے آنے اور متحد ہوکر آواز اٹھانے کی وجہ سے حکام مجبور ہوئے کہ وہ مسائل کے حل تلاش کریں۔

2015ء میں جب صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو اس نے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قانونی ماہرین پر مشتمل کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو جانچے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے تجاویز پیش کرے۔

اس اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دینے، آرٹیکل 51 اور 59 میں ترمیم کرکے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے اور این ایف سی، این ای سی اور اسرا جیسے آئینی اداروں میں اس کی نمائندگی کی تجویز پیش کی۔ عوام کی جانب سے ان تجاویز کو سراہا گیا لیکن ان کو نافذ کرنے کے بجائے حکومت نے 2018ء میں ایک دوسرا حکم نامہ جاری کردیا۔

پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی اس مسئلے کو حل کی طرف لے جانا چاہ رہی ہے۔ گلگت بلتستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت اور سول سوسائٹی عبوری صوبے کے مطالبے پر متحد ہے۔

ایسا نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت بھی گلگت بلتستان کو پانچویں صوبے کے طور پر ضم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ گلگت بلتستان میں انتخابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ عوام کی امیدیں بھی بلند ہیں۔ مستقبل میں اٹھایا جانے والا ایسا کوئی بھی قدم جو عوامی امنگوں کے مطابق نہ ہو مخالفت کو جنم دے سکتا ہے۔ گزشتہ نسلوں کی جانب سے کی گئی کوششوں کی یادیں اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں باقی ہیں اور وہ اب پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ اپنے مطالبات کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔


یہ مضمون 21 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں