اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے پرو وائس چانسلر کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا

24 اکتوبر 2020
2008 میں اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا—فائل فوٹو: سارا انصاری
2008 میں اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا—فائل فوٹو: سارا انصاری

پشاور: ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے باضابطہ طور پر صوبے کے گورنر سے درخواست کی ہے کہ وہ تاریخی درسگاہ کے انتظامی اور مالی معاملات میں بےضابطگیوں پر اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے پرو-وائس چانسلر کو 3 ماہ کے لیے جبری رخصت پر بھیج دیں۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ گورنر شاہ فرمان کی ہدایات اور گورنر انسپیکشن ٹیم (جی آئی ٹی) کی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں اس مقصد کے لیے سمری گورنر کو ارسال کردی گئی، جو صوبے میں سرکاری جامعات کے چانسر ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا یونیورسٹی ایکٹ 2012 کے تحت چانسلر سرکاری جامعہ کے وائس چانسلر کو 90 دن کے لیے جبری رخصت پر بھیج سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کا اسلامیہ کالج میں نئی تعمیرات پر حکم امتناع

اس ایکٹ کا سیکشن 12 (8) کہتا ہے کہ اگر حالات یہ مطالبہ کر رہے ہوں تو چانسلر، وائس چانسلر کو 90 روز کے لیے جبری رخصت پر بھیج سکتا ہے۔

اگرچہ 16 اکتوبر کو ایک خط کے ذریعے گورنر کی جانب سے ہائیر ایجوکیشن سیکریٹری کو ہدایت کی گئی تھی وہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر کو اگلے احکامات تک جبری رخصت پر بھیجیں۔

خط میں کہا گیا تھا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور مسائل کا سامنا کر رہی ہے، جس میں سے زیادہ تر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے خود پیدا کیے گئے، مزید یہ کہ جی آئی ٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں اس رپورٹ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔

مذکورہ خط کے مطابق اس رپورٹ میں موجودہ پرو وائس چانسلر کے خلاف ایفیشی اینسی اور ڈسیپلنری اسٹیچیوز 2016 کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ زرعی یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر جان بخت کو اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدے کا اضافہ چارج دیا جائے گا۔

اس حوالے سے جب آئی سی یو کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے خلاف الزامات کو مسترد کردیا اور کہا کہ یونیورسٹی کے امور میں جو بھی بےضابطگیاں رپورٹ ہوئیں وہ اصل میں ان کے پیش رو کی مدت کے دوران ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے ایک سالہ طویل پرو وائس چانسلر کے دور میں یونیورسٹی کے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کیا گیا اور اب جامعہ درست سمت پر ہے۔

ڈاکٹر نوشاد خان کا کہنا تھا کہ مختلف منصوبوں میں ’زائد بھرتیاں اور غلط انتخاب‘ یونیورسٹی کے اصل مسائل تھے لیکن یہ سب کچھ ان کے پیش رو کے دور میں ہوا۔

دوران گفتگو ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی ایک سال کی مدت میں جو بھی کیا وہ یونیورسٹی کے ریکارڈ میں ثبوت کے ساتھ دستیاب ہے، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے قانون اور قوائد کی خلاف ورزی نہیں کی۔

واضح رہے کہ آئی سی یو کے وائس چانسلر پروفیسر حبیب احمد کی مدت ایک سال قبل ختم ہوگئی تھی اور اس کے بعد سے صوبائی حکومت نے کوئی مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں کیا۔

حکومت نے کچھ ماہ قبل دیگر 7 جامعات کے ساتھ اس عہدے کے لیے بھی اشتہار دیا جس پر کئی پروفیسر نے اپلائی کیا۔

یہ بھی پڑھیں: تعلیمی اداروں کا کھلنا اور والدین کی بڑھتی پریشانی!

ذرائع کا کہنا تھا کہ امیداورں کی تعلیمی اسناد کی جانچ کی گئی جبکہ وی سیز کے تقرر کے لیے قائم اکیڈمک سرچ کمیٹی انٹرویو کے لیے شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کو کال کرے گی۔

علاوہ ازیں ایک سینئر ماہر تعلیم نے ڈان کو بتایا کہ ’ٹانگیں کھینچنا‘ اور آئی سی یو ٹیچرز کے مختلف گروپس کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا جو جامعہ کے تاریخی حیثیت کو بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاریخی اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی کی سطح پر اپ گریڈ نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس کی اپ گریڈیشن کے بعد سے ہی یہ تاریخی درسگاہ اساتذہ کی سیاست کا مرکز بن گئی ہے۔

خیال رہے کہ سال 2008 میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا تھا۔


یہ خبر 24 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں