پاور ڈویژن میں 30 کھرب روپے کے غلط استعمال ہونے کی نشاندہی

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2020
اے جی پی نی اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
اے جی پی نی اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کو پاور ڈویژن کی جانب سے تقریباً 30 کھرب روپے کے پبلک فنڈز کے استعمال میں غلطیاں ملی ہیں، جس میں بڑی بےضابطگیاں، بدانتظامی، غلط استعمال اور غبن شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سال 20-2019 کے لیے اپنی آڈٹ رپورٹ، جسے تقریباً 8 ماہ کی تاخیر کے بعد قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا، اس میں اے جی پی نے موجودہ صورتحال، نظم و نسق کی کمی اور کمزور مالی اور انتظامی کنٹرول کے تحت شعبہ توانائی کے استحکام پر سوالات بھی اٹھائے۔

واضح رہے کہ یہ آڈٹ مالی سال 19-2018 کے لیے مالیاتی اکاؤنٹس کی بنیاد پر تھا جبکہ یہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تحت پہلا سال تھا۔

مزید پڑھیں: پاور ڈویژن کا 8 ماہ میں 106 ارب روپے کا اضافی ریونیو جمع کرنے کا دعویٰ

خاص طور پر ملک کے اعلیٰ آڈیٹر نے پاور ڈویژن اور ان سے منسلک محکموں کے اکاؤنٹس میں مجموعی طور پر 318 کیسز کی نشاندہی کی، جس میں 29 کھرب 65 ارب مالیت کے عوامی فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا۔

اپنے اہم نتائج میں اے جی پی کا کہنا تھا کہ 107 ارب روپے سے زائد کی 64 بے ضابطگیاں بجلی کے سازو سامان کی خریداری، سول اور الیکٹرکل ورکس، کنسلٹنسی سروسز اور معاہدے کی بدانتظامی سے متعلق ہے۔

50 کیسز میں اے جی پی نے 25 کھرب روپے سے زائد کی وصولیوں پر روشنی ڈالی اور 64 ارب سے متعلق آڈٹ شدہ اداروں کے داخلی قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کے 108 دیگر کیسز کی نشاندہی کی۔

اس کے علاوہ مزید 50 کیسز میں 184 ارب روپے سے متعلق ریگولیٹری قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزیوں کا پتا لگایا گیا جبکہ 21 کیسز میں دھوکا دہی، غبن، غلط استعمال اور چوری کی وجہ سے 4 ارب روپے سے زائد کا نقصان رپورٹ ہوا۔

4 دیگر کیسز میں کمرشل بینکوں کے ساتھ اکاؤنٹس کے نظم و نسق کے باعث ایک ارب 20 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئیں جبکہ ہیومن ریسورس ریگولیٹریز سے متعلق 26 کروڑ 30 لاکھ روپے مالیت کے 21 کی نشاندہی کی گئی۔

ان اہم حقائق میں اے جی پی نے ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوش (ٹی اینڈ ڈی) نقصانات کم کرنے میں پاور ڈسٹریبوشن کمپنیز (ڈسکوز) کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

اس میں کہا گیا کہ ڈسکوز کو مالی سال 18-2017 میں 18.3 فیصد (13 روپے 6 پیسے فی ایک فیصد نقصان کی شرح پر) ٹی اینڈ ڈی نقصانات کے حساب سے 240 ارب روپے کے نقصانات ہوئے، جو سال 19-2018 میں 15 روپے 18 پیسے فی ایک فیصد نقصان پر 17.7 فیصد ٹی اینڈ ڈی نقصان کے حساب سے 276 ارب روپے تک بڑھ گیا، اس کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ اس سال تکنیکی نقصان میں 0.6 فیصد کی معمولی کمی حاصل ہوئی لیکن اس نے ٹیرف اضافے کو ختم کردیا۔

علاوہ ازیں چونکہ ریگولیٹر نے صارفین کے ٹیرف کے لیے 15.8 فیصد نقصانات کی لاگت لگائی، ڈسکوز کو صارفین سے اس طرح کے زائد نقصان کی لاگت کی وصولی کے بعد بھی ان دو برسوں میں 72 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: نیٹ ہائیڈل پروفٹ کی ادائیگیوں کے باعث سیکریٹری پاور کو عہدے سے ہٹادیا گیا

آڈٹ میں یہ بتایا گیا کہ طریقہ کار کے تحت فیلڈ اسٹاف نے مٹیریل (سامان) کی اکاؤنٹنٹ نہیں کی اور اس کی وجہ سے لیکیج اور نقصان کے لیے مواقع بڑھ گئے، کئی رپورٹ میں فیڈرز کی بحالی اور نگرانی کا ذکر کیا گیا تھا جو آباد نہیں تھے جس کے نتیجہ فیڈر نقصانات کے ناقص انتظام کی صورت میں نکلا۔

اس کے علاوہ کیش ریکنسلیشن اور ریونیو کلیکشن کے اہم شعبوں میں انٹرنل کنٹرول غیراطمینان بخش رہا جبکہ لاہور اور پشاورت کی ڈسکوز میں پینشن کی ادائیگیوں میں دھوکا رہی اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی میں ریونیو فراڈ کی بھی نشاندہی کی گئی۔

اے جی پی کا کہنا تھا کہ (پاور ڈویژن میں) انٹرنل آڈٹ ہونے کے باوجود بار بار بے ضابطگیوں کی تکرار نے اس کے مؤثر ہونے پر سوالیہ نشان بنا دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں