سعودی عرب کا غیرملکی ملازمین کیلئے رائج 'کفالہ کا نظام' ختم کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2020
7دہائیوں سے رائج اس قانون کی جگہ آجروں اور ملازمین کے مابین ایک نیا معاہدہ تشکیل دیا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی
7دہائیوں سے رائج اس قانون کی جگہ آجروں اور ملازمین کے مابین ایک نیا معاہدہ تشکیل دیا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: سعودی عرب نے کفالہ کے نام سے مشہور غیر ملکی کارکنوں کی اسپانسرشپ کے نظام کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی جگہ آجروں اور ملازمین کے مابین ایک نیا معاہدہ تشکیل دیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے عربی زبان کے آن لائن معاشی اخبار 'معال' کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ریاست میں 7 دہائیوں سے رائج نظام کفالہ عام طور پر غیر ملکی کارکنوں کو ایک آجر کے ساتھ باندھتا ہے۔

مزید پڑھیں: ’مرد نہ ہی کورونا وائرس، سعودی خواتین کو اب کوئی پیچھے نہیں چھوڑ سکتا‘

انسانی حقوق کے گروپوں نے اس نئے نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے کارکن اور مزدور استحصال کا شکار ہوں گے، تاہم سعودی میڈیا نے کہا کہ کفالہ کے قانون کا خاتمہ آجر اور غیر ملکی ملازمین کے مابین تعلقات کو روزگار کے ایک ایسے معاہدے تک محدود کردے گا جو دونوں فریقوں کے حقوق اور فرائض کی وضاحت کرے گا۔

فروری میں سعودی گزیٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کفالہ کے نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ سعودی عرب کی جانب سے کی جا رہی معاشی اصلاحات کا ایک حصہ ہے جو ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے ویژن 2030 کے اجرا کے بعد منظرعام پر آیا ہے۔

منصوبے کے تحت کفالہ کے خاتمے سے تارکین وطن مزدوروں کو مل سے باہر جانے اور دوبارہ داخلے کے سلسلے میں ویزے کی آزادی میسر ہو گی جبکہ وہ خود سے آخری اخراج کی مہر حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کسی پابندی یا منظوری کے بغیر ملازمت اختیار کر سکیں گے۔

ملازمت کے معاہدے میں طے شدہ قانون کے مطابق تارکین وطن مزدوروں کو نقل و حرکت کی مکمل آزادی حاصل ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: ایئر ٹریفک کنٹرول میں ایک ہی سال میں 26 خواتین کی شمولیت

سعودی عرب میں 7 دہائیوں سے نافذ کفالہ کا نظام غیر ملکی کارکن اور آجر کے مابین تعلقات کو کنٹرول کرتا ہے، نظام کے تحت مزدور ریاست میں پہنچنے کے بعد معاہدے کی شرائط کے مطابق اپنے کفیل کے لیے کام کرنے کا پابند ہوجاتا ہے اور وہ اپنی کفالت کی منتقلی کے بغیر دوسروں کے ساتھ کام کرنے کا حقدار نہیں۔

اخبار نے کہا کہ اس دوران کفالت کے نظام میں متعدد تبدیلیاں آئیں جس کا مقصد انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ دونوں فریقوں کے طرز عمل اور مالی حقوق کی حفاظت کرنا تھا، اخبار نے مزید کہا کہ بڑی تعداد میں مالکان نے اس سسٹم کی بہت سی شقوں کا غلط استعمال کیا جس کے نتیجے میں بین الاقوامی تنظیموں نے اس نظام کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔

کفالہ کے نظام کی بہت زیادہ نفی کی گئی اور اس نے بیرونی طور پر ریاست کے تشخص پر برا اثر ڈالا بلکہ ریاست میں ملازت کے مواقع پر بھی بری طرح اثرانداز ہوا کیونکہ کچھ اسپانسرز نے اپنے ذاتی فوائد کے لیے اس کا غلط استعمال ہوا ہے، کفالت کے نظام کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس نے تجارتی ویزا کے لیے بلیک مارکیٹ کو پھلنے پھولنے کا راستہ فراہم کیا۔

دوسری طرف توقع کی جاتی ہے کہ کفالت کے نظام کے خاتمے سے سعودی لیبر مارکیٹ میں بہت سے فوائد حاصل ہوں گے جبکہ شہریوں کی جانب سے تارکین وطن محنت کشوں کے مابین مسابقت کی حمایت کی جائے گی، دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ باصلاحیت افرادی قوت کے لیے کام کرنے کے ماحول کو بہتر بنانے کے علاوہ مختلف ممالک سے انتہائی قابل اور بہترین صلاحیت کے حامل تارکین وطن کو ملازمت کے لیے راغب کیا جا سکے گا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب میں ’باز‘ پونے تین کروڑ روپے میں فروخت

سن 2019 میں، سعودی عرب نے کچھ غیر ملکیوں کے لیے اپنا پہلا مستقل رہائشی پروگرام پریمیم ریذیڈنسی کارڈ (پی آر سی) شروع کیا تھا تاکہ وہ سعودی کفیل کے بغیر اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس ملک میں رہ سکیں، اس کا اعلان سب سے پہلے 2016 میں محمد بن سلمان نے کیا تھا لیکن مئی 2019 میں شوریٰ کونسل نے اس کی منظوری دی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کفالت کے نظام کے خاتمے کا مقصد بھی مضبوط معاشی نمو کے پہلو کو مزید آگے بڑھانا اور تجارتی سرگرمیوں کو توسیع دینا ہے کیونکہ نیا رہائشی نظام غیر ملکیوں کو نقل و حرکت کی آزادی، رہائش کے اجرا کے حقوق اور اپنے رشتہ داروں کے لیے ویزا کے حصول کے مواقع فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں ریاست میں مزید سرمایہ آئے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں