گستاخانہ خاکوں کا معاملہ: سینیٹر فیصل جاوید کا پاک-فرانس دوستی گروپ کی سربراہی چھوڑنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2020
فیصل جاوید نے کہا کہ فرانسیسی صدر کے اس قبیح عمل کی حوصلہ افزائی سے یورپ میں اسلاموفوبیا کو مزید ہوا ملے گی — فائل فوٹو:
فیصل جاوید نے کہا کہ فرانسیسی صدر کے اس قبیح عمل کی حوصلہ افزائی سے یورپ میں اسلاموفوبیا کو مزید ہوا ملے گی — فائل فوٹو:

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے فرانسیسی صدر کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی حمایت پر پاک۔فرانس پارلیمانی دوستی گروپ کی سربراہی بطور احتجاج چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

سینیٹر فیصل جاوید نے اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بھجوا دیا جس میں انہوں نے کہا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے خاتم النبیّین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے خلاف توہین آمیز خاکوں کی حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ فرانسیسی صدر کے اس قبیح عمل کی حوصلہ افزائی سے یورپ میں اسلاموفوبیا کو مزید ہوا ملے گی، ان کے اس اقدام سے انسانیت تقسیم کا شکار ہوگی اور شدت پسندی بڑھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت تمام عالمی فورمز پر اسلاموفوبیا کا معاملہ اٹھایا تھا جبکہ نازی ازم کی طرح مقدس ہستیوں کی ہتک و توہین کے خلاف عالمی سطح پر قانون سازی وقت کا تقاضا ہے۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ وزیر اعظم، فرانسیسی صدر کے اقدام پر واضح اور دوٹوک مؤقف اپنا چکے ہیں اور انہوں نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ فرانسیسی صدر کے اقدام سے انسانیت کو اس نقصان کا اندیشہ ہے جو نازی یا نسل پرست نہ پہنچا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: فرانسیسی صدر نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلایا، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی فرانسیسی منطق ناقابل قبول ہے، فرانسیسی حکومت کے اس رویے کے خلاف میں فوری طور پر پاک-فرانس پارلیمانی دوستی گروپ کی سربراہی سے مستعفی ہوتا ہوں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے متفقہ ردعمل ہماری مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے اور میری پرزور سفارش ہے کہ پارلیمان کی سطح پر قائم اس گروپ کو مکمل طور پر تحلیل کردیا جائے۔

فرانسیسی صدر کا متنازع بیان

واضح رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترک صدر کا فرانسیسی صدر کو 'دماغی معائنہ' کرانے کی تجویز

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سیکیولر "بنیاد پرست اسلام" کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔

ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے 'بنیاد پرست اسلام' کے خلاف 'دفاع' کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

تبصرے (0) بند ہیں