لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق نے اپنے حالیہ بیان کی وجہ سے خبروں میں نواز شریف کی جگہ لے لی ہے۔ گزشتہ ہفتے دیے گئے بیان کی وجہ سے اب نواز شریف کی بجائے ایاز صادق کا زیادہ ذکر ہو رہا ہے۔ خوف اور غم و غصہ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے۔ لیکن اس غصے کا رخ شاید غلط ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ سیاست میں دفاعی امور میں بات چیت بھی ہوسکتی ہے اور ان پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے آپ امریکی سیاست کی ہی مثال لے لیں۔ امریکا میں صدارتی مہم کے موضوعات میں سیکیورٹی موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں، اور صدارتی امیدواروں کو سیکیورٹی امور پر ان کی گرفت کے حوالے سے پرکھا جاتا ہے۔

اگرچہ انتخابات قومی مسائل پر ہی لڑے جاتے ہیں لیکن کوئی امیدوار بھی عالمی سطح پر کمزور نظر نہیں آنا چاہتا۔ اس بات میں بھی کوئی حیرانی نہیں کہ کچھ عرصے پہلے تک امیدواروں کے لیے فوجی تجربے کو اہمیت دی جاتی تھی اور اس کے نہ ہونے کو ایک خامی تصور کیا جاتا تھا۔ اسی طرح صدر جمی کارٹر کے دورِ صدارت کی کوئی بات بھی ایرانی مغویوں کے معاملے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

ظاہری وجوہات کی بنا پر پاکستان میں ایسی گفتگو نہیں ہوسکتی۔

ہمارے ملک میں خارجہ پالیسی پر اس طرح سے گفتگو نہیں ہوتی جیسا کہ ہونی چاہیے۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کو اس بات کی آزادی ہی نہیں کہ وہ خارجہ معاملات پر بحث کریں اور اس ضمن کوئی نئی پالیسی پیش کریں۔ اس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی کا میدان عموماً مخالفین کی حب الوطنی پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح خارجہ پالیسی پر ہونے والی بحث مذہبی بحثوں کی طرح ہوجاتی ہیں جس میں دوسرے کو کافر ثابت کرنے پر ہی زور ہوتا ہے۔ اس طرح بامقصد بحث کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔

اس حوالے سے گزشتہ کچھ سالوں کی مثال لے لیجیے۔ اس عرصے میں ایک تو خارجہ پالیسی پر بات بہت ہی کم ہورہی ہے اور جو ہورہی ہے ان کا مقصد صرف یہ جاننا ہوتا تھا کہ کون چین، امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے ہوئے بھارت سے خوفزدہ رہتا ہے یا اس کے قریب۔ کم و بیش ہر حکومت پر ہی بھارت کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے اور چین سے تعلقات بگاڑنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان مباحث میں الزامات لگانے کے علاوہ شاید ہی کچھ ہوا ہو۔

تقریباً ایک سال سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر بھارت کو کھلی چھوٹ دینے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت نے بالاکوٹ پر حملہ کیا اور کشمیر کی حیثیت تبدیل کی۔

ایاز صادق کی تقریر بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھی۔ اپنی جماعت کے دیگر رہنماؤں کی طرح انہوں نے بھی حکومت پر بھارت سے خوفزدہ ہونے کا الزام لگایا، اور اگر اپنے قائد کے بیانیے کے مطابق ان کا ہدف ادارے نہیں بلکہ افراد تھے تو ممکن ہے کہ اس سے انہیں اپنی جماعت میں مزید اہمیت مل جائے۔

اب یہ بات بالکل غیر ضروری ہے کہ بھارتی میڈیا نے ایاز صادق (اور فواد چودھری کی بھی) تقریر کو کس زاویے سے پیش کیا ہے۔ یہ سبب و علل کا معاملہ ہے کہ کیا اس تقریر کو اس لیے ہدف بنایا جا رہا کہ بھارتی میڈیا نے اسے کس طرح پیش کیا یا پھر یہ صرف کسی کے اخلاص پر سوال اٹھانے اور حملہ کرنے کا جواز درکار تھا؟

یہ تمام بحث چاہے اس پر ہو کہ کون مودی کا یار ہے اور کون فروری 2019ء میں بھارت سے خوفزدہ تھا، اسے اب ختم ہوجانا چاہیے۔

یہاں زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مخالفین کو داخلی اور خارجہ پالیسی پر نیچا دکھانے کے لیے کس حد تک گر سکتی ہیں۔ کیا دیگر ممالک میں بھی سیاست ایسی ہی ہوتی ہے؟ شاید ہوتی ہو لیکن پاکستان کے ماحول پر اس کے جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مقابلہ صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں ہے۔ لہٰذا خطرہ یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کو زیادہ بدنام کیا جاتا ہے تو اس وجہ سے پیدا ہونے والا خلا دوسرے پُر نہ کرلیں۔

سیاسی جماعتوں نے اس خطرے کو 1999ء کے بعد کے عرصے میں بھانپ لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ہی میثاق جمہوریت کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ اس میثاق کے ذریعے سیاست کے کھیل میں ایک دوسرے کے کردار کو تسلیم کیا گیا۔ اس میثاق کا نکتہ نمبر 21 ہے کہ ’ہم اس نمائندہ حکومت کے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم کریں گے جو حزبِ اختلاف کے کردار کو تسلیم کرے گی، اور دونوں میں سے کوئی بھی غیر آئینی طریقے سے دوسرے کو نقصان نہیں پہنچائے گا‘۔

2008ء کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو سیاسی نظام میں ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے دیکھا بھی گیا اور 2013ء میں بننے والی (ن) لیگ کی حکومت کے نصف حصے تک اس پر عمل جاری رہا۔

لیکن اس دو طرفہ معاہدے میں پی ٹی آئی شامل نہیں تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی پرانی سیاسی جماعتوں سے اس قسم کی مفاہمت کرنے کو تیار ہے۔ موجودہ بحران بھی اسی طرزِ عمل کا نتیجہ ہے۔

اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانا اور لفظوں کے تیر برسانا 1990ء کی دہائی کی یاد دلاتا ہے۔ ایک طرف سمجھتی ہے کہ دوسری طرف بدعنوان ہے تو دوسرے یہ سمجھتے ہیں کہ پہلی طرف نااہل اور سلیکٹڈ ہے، اور جس طرح 2014ء میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے کی کوشش کی، اسی طرح پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور خاص طور پر (ن) لیگ بھی اس راہ کو اختیار کرسکتی ہے۔

اس وقت سندھ اور وفاق کے تعلقات ویسے ہی ہیں جیسے تعلقات نواز شریف کی پنجاب حکومت کے بے نظیر بھٹو کی وفاقی حکومت کے ساتھ تھے۔ 1990ء میں بقائے باہمی کی صورتحال ایسی ہی تھی جیسی اب ہے۔ جس وقت 1999ء میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پیپلزپارٹی نے ایک منتخب جمہوری حکومت کے خاتمے کو سراہا تھا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی ویسا ہی کوئی حل نکل سکتا ہے جیسا کہ پہلے نکالا گیا تھا؟ جس میں طرفین (تمام سیاسی جماعتیں) ایک دوسرے کے حقِ سیاست کو تسلیم کرلیں؟

یقیناً اگر مذاکرات کی ضرورت ہے تو وہ پہلے سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے چاہئیں جس میں وہ ایک میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کریں۔ اسٹیک ہولڈرز اور کسی مفاہمتی کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی باتیں بعد میں بھی ہوسکتی ہیں۔

خطرہ یہ ہے کہ اس مرتبہ بھی کسی حل تک پہنچنے سے پہلے دوبارہ اقتدار پر فوج قابض نہ ہوجائے، اور ایسا نہ ہو کہ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر برسوں کے لیے سیاست سے باہر ہوجائیں۔

موجودہ سیاسی قیادت میں سے شاید ہی کسی کو اس بات کا احساس ہو کہ موجودہ حالات میں کوئی بھی فاتح نظر نہیں آرہا، اور اگر یہ بات سچ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کشیدگی ابھی مزید کچھ عرصہ چلے گی اور ہمیں شاید ہی کوئی سکون کی گھڑی دیکھنے کو ملے۔


یہ مضمون 3 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں