صدارتی نظامِ حکومت کی تشکیل کے لیے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2020
درخواستگزار کے مطابق پاکستانی عوام کو سیاسی انصاف نہیں مل رہا — سپریم کورٹ/ویب سائٹ
درخواستگزار کے مطابق پاکستانی عوام کو سیاسی انصاف نہیں مل رہا — سپریم کورٹ/ویب سائٹ

اسلام آباد: ملک میں صدارتی طرزِ حکومت کو متعارف کروانے کے لیے فوری طور پر ریفرنڈم کے انعقاد کے مطالبے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بار اس درخواست کو امریکا میں مقیم پاکستانی حفیظ الرحمٰن نے اپنے وکیل خالد عباس خان کے ذریعے دائر کیا اور اس میں دلیل دی گئی کہ پاکستانی عوام کو سیاسی انصاف نہیں مل رہا ہے اور اس کے نتیجے میں انہیں معاشی اور معاشرتی انصاف سے بھی انکار کیا جا رہا ہے۔

اس سے قبل بھی اسی معاملے پر سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کی گئیں تھیں تاہم ان میں سے بیشتر کو رجسٹرار آفس کی جانب سے خارج کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: صدارتی نظام پر ریفرنڈم کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست

اپنی درخواست میں حفیظ الرحمٰن نے دلیل دی کہ 1947 سے پاکستان کے عوام کو سیاسی انصاف سے انکار کیا گیا ہے کیونکہ وہ ان سیاسی جماعتوں کے زیر اقتدار تھے جنہیں مقبول ووٹوں کا 51 فیصد سے بھی کم ووٹ ملا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر برسراقتدار پارٹیوں نے 2008، 2013 اور 2018 میں بالترتیب 25.6 فیصد، 32.7 فیصد اور 31.8 فیصد مقبول ووٹ حاصل کیے‘۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ جمہوریت کے اکثریتی حکمرانی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

اس کے برعکس پارلیمانی نظام میں ہم قانون سازوں کا انتخاب کرتے ہیں لیکن وہ ایگزیکٹو بھی بن جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام‘ کی بحث ایک بار پھر زندہ

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کو اپنے ایگزیکٹوز اور ممبران کو الگ سے منتخب کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ہے اور انہیں سیاسی انصاف سے انکار کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صدارتی نظام میں لوگ خوبیوں کی بنیاد پر قانون ساز اور ایگزیکٹوز علیحدہ علیحدہ منتخب کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا کہ پارلیمانی نظام نے پاکستان جیسے معاشرے، جو زبان اور مذہبی فرقوں میں تقسیم ہے، میں پولرائزیشن کی حوصلہ افزائی کی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ’یہ پولرائزیشن 2008، 2013 اور 2018 کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے ثابت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صدارتی نظام میں کسی بھی صوبے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو اپنی خوبیوں کی بنیاد پر عوامی ووٹ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے مذہبی اور زبان سے جڑی پولرائزیشن کا خاتمہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تقریبا 25 فیصد خصوصی نشستیں قانونی کرپشن اور پاکستانی عوام کے ساتھ ناانصافی ہیں، اس طرح پاکستانی عوام کو سیاسی انصاف سے انکار کیا گیا ہے جبکہ صدارتی نظام میں پارلیمنٹ میں کوئی مخصوص نشستیں نہیں ہوں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں