صدر مملکت کا اسٹیٹ لائف کو بیوہ خاتون کو انشورنس رقم کی ادائیگی کا حکم

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2020
صدر مملکت عارف علوی لوک ورثہ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو: اے پی پی
صدر مملکت عارف علوی لوک ورثہ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وفاقی محتسب کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے اتوار کے روز ایک معاملے میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے دعوے کو مسترد کردیا اور آرگنائزیشن کو ہدایت کی کہ وہ پالیسی ہولڈر کی بیوہ کو منافع کے ہمراہ انشورنس رقم فراہم کرے۔

کارپوریشن نے اس بنیاد پر بیوہ عورت کو انشورنس کی رقم ادا کرنے سے انکار کردیا تھا کہ ان کے شوہر کو انشورنس سے قبل ہی ہیپاٹائٹس سی اور جگر کی دائمی بیماری تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی: اسٹیٹ لائف کے سینیئر عہدیدار کی عمارت سے چھلانگ لگا کر 'خودکشی'

تاہم صدر نے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے خلاف وفاقی محتسب طاہر شہباز کے فیصلے کو برقرار رکھا، صدر نے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کی جانب سے انشورنس پالیسی کو اس بات پر مسترد کیے جانے کے فیصلے کو رد کردیا کہ متوفی نے اپنی بیماری کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔

انہوں نے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کی نمائندگی کے جواب میں کہا کہ میں ایجنسی کو وفاقی محتسب کی ہدایت کے مطابق دعوے کو حل کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اور وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ منافع 2017 تک نہیں بلکہ تصفیے کی تاریخ تک ادا کیا جائے۔

صدر نے ایوان صدر کے ذریعے میڈیا سے شیئر کردہ اپنے حکم میں کہا کہ کمپنی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انشورنس کے وقت اس بات کو یقینی بنائے اور انشورنس سے قبل بیماری کو ثابت کرنے کی ذمہ داری ایجنسی پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بیوہ عورت کے لیے بہت تکلیف دہ ہے جو تصفیے کے لیے 3 سال سے انتظار کر رہی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کو وفاقی محتسب کے حکم کے مطابق دعویٰ طے کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ معاہدے کی تاریخ تک منافع کے ساتھ ادائیگی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ لائف انشورنس کو نجکاری پروگرام میں شامل کرنے کی منظوری

یاد رہے کہ ٍعابد باجوہ نے 2008 میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان سے 100،000 روپے کی ضمانت کی لائف انشورنس پالیسی حاصل کی تھی، 2017 میں ان کی موت کے بعد ان کی بیوہ رفعت سلطانہ نے ڈیتھ انشورنس کا دعویٰ دائر کیا جسے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان نے مسترد کردیا۔

اس کے نتیجے میں بیوہ نے وفاقی محتسب سے رجوع کیا تھا جس نے ناقابلِ قبول حکم منظور کیا تھا جس کے خلاف اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان نے صدر کے سامنے ایک درخواست دائر کی تھی۔

محتسب نے دعویٰ کیا تھا کہ جب پالیسی خریدنے والے نے جب پالیسی خریدی تو انہیں کوئی سنگین بیماری نہیں تھی اور یہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے کہ انہیں یہ بیماری 2008 سے تھی۔

لوک ورثہ میلہ

10 روزہ لوک ورثہ میلہ کے اختتام پر نوجوان فنکاروں اور کاریگروں کو ایوارڈ دینے کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر علوی نے ثقافت کو زندہ رکھنے والے لوک فنکاروں اور کاریگروں کی تجارتی سطح پر پذیرائی کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اکیلے آرٹ اور ثقافت کا فروغ نہیں کر سکتی، اس مقصد کے لیے نمائشیں اور ثقافتی میلوں کا انعقاد بھی ضروری ہے، پرانی یادداشت لوگوں کو مقامی ثقافت اور فن کی طرف واپس لوٹا رہی ہیں، لوک ورثہ میں دستیاب جگہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوک میلہ جیسی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا چاہیے اس سے نہ صرف فوک گلوکاروں اور ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ انہیں مالی فوائد بھی پہنچیں گے۔

مزید پڑھیں: 10 کروڑ کا غبن، اسٹیٹ لائف کے 23 ملازمین گرفتار

صدر مملکت نے آرٹ ورک کی نمائش کے لیے ایوان صدر کی لابی فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی جہاں اعلیٰ ملکی اور غیر ملکی شخصیات دورہ کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ثقافتی ورثہ بالخصوص بدھ مت کے نوادرات اور آثار کے حوالہ سے ثقافتی ورثے کا حامل ملک ہے جو سیاحوں کو راغب کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے جو کسی بھی قوم کی تاریخ اور ترقی کو ماپنے کے لیے عمارات اور ثقافتی مقامات کی سیر کو ترجیح دیتے ہیں۔

تقریب میں خاتون اول ثمینہ علوی، سیکریٹری قومی ورثہ وثقافتی ڈویژن نوشین جاوید، لوک ورثہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر طلحہ علی خان کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے آئے ہوئے ہنرمندوں اور فن کاروں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

صدر نے کہا کہ عقیدے کی بنیاد پر تصویر کشی کی پابندیوں کی وجہ سے مسلمان ہنرمندوں نے جیومیٹرک آرٹ کو فروغ دیا جس سے گنبدوں اور بڑی عمارات کو سہارا دینے والے مینار اسلامی فن تعمیر کا طرہ امتیاز بن گئے۔

فنکاروں اور کاریگروں میں نقد ایوارڈز اور شیلڈ تقسیم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوفیوں اور محمد بن قاسم جیسے فاتحین کی آمد نے تنوع کو بڑھا کر مقامی ثقافت کو مزید تقویت بخشی۔

یہ بھی پڑھیں: کیا آپ کو لائف انشورنس کروانی چاہیے؟

قبل ازیں اپنے خطاب میں نوشین جاوید نے کہا کہ گزشتہ چار دہائیوں سے لوک میلہ لوک فنکاروں اور مقامی کاریگروں کو اپنی مصنوعات کی نمائش اور فروخت کرنے کے لیے ایک فورم مہیا کررہا ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں سالانہ لوک میلہ فیسٹیول میں پیش کردہ تمام علاقائی رنگوں، فنون لطیفہ اور پرفارمنس کی آمیزش کی وجہ سے مقامی اور غیر ملکی سفارتکاروں کو راغب کرتا ہے۔

طلحہ علی نے کہا کہ مقامی ثقافت اور ثقافتی تنوع کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے، انہوں نے ثقافت اور ثقافتی تنوع کے شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ آنے والی نسلوں کو بیرونی ثقافتی یلغار سے بچانے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں