دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور زندگی کے متعدد شعبوں میں ہونے والی پیشرفت نے جہاں انسانی زندگی پر بہت سے مثبت اور منفی نتائج مرتب کیے ہیں، وہیں اس ترقی نے عالمی ماحول کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔

آج دنیا بھر میں اوسط سے زیادہ ہونے والی بارشوں، غیر متوقع سیلاب، طوفان اور زلزلوں کے باعث ہونے والی تباہی کا سب سے بڑا محرک یہ ہے کہ آبادی کو بسانے اور انہیں دوسرے فوائد پہنچانے کے لیے درختوں کی بے دریغ کٹائی کی گئی ہے۔ جنگلات کا رقبہ کم کردیا گیا، جس کی وجہ سے وہاں پر رہنے والی جنگلی حیات یا تو مکمل طور مٹ چکی ہیں یا پھر ان کی تعداد اتنی کم ہوگئی ہے کہ ان کے تحفظ اور ان کی افزائش کے لیے خصوصی اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔

اس پریشانی کے عالم میں اچھی خبر یہ ہے کہ پوری دنیا کو کم از کم ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے منفی اثرات کا ادراک ضرور ہے۔ اس لیے موجودہ عہد میں ہونے والی منصوبہ بندی میں ماحول کے تحفظ کے اقدامات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔

جہاں دنیا کے بہت سے ممالک اپنے طور پر ماحول کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں وہیں میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر دنیا ماحولیات کی بہتری کے لیے سنجیدہ ہے تو اس کو ایک رہنما کی ضرورت ہے جو خود بھی ماحول کی بہتری کے لیےاقدامات کرے اور دنیا کو بھی اس راہ پر ڈالے۔

رہنما کی تلاش کے لیے اگر نظر دوڑائی جائے تو نظر ریاست ہائے متحدہ امریکا پر ٹھہرتی ہے۔ امریکا اس لیے ایک بہتر انتخاب ہے کیونکہ مشرق سے لے کر مغرب تک دنیا کے ہر خطے میں اس کے اتحادی موجود ہیں اور دنیا کے سمندروں میں اپنے مخالفین پر نظر رکھنے کے لیے ان کے بحری بیڑے موجود ہیں۔

اس صدی کے اوائل میں امریکا نے اس وقت عالمی سطح پر ماحول کی بہتری کے لیے کچھ کردار ادا کیا جب امریکا کے صدر براک اوباما نے 200 ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کے لیے 2015ء میں پیرس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے سے اس بات کی قوی امید ہوچکی تھی کہ دنیا اب مل کر ماحول کے تحفظ اور بہتری کے لیے اقدامات کرے گی۔

پیرس میں ہونے والے معاہدے کی بازگشت ابھی مکمل طور پر تھمی نہیں تھی کہ 2016ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک معروف کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ کو فتح نصیب ہوئی اور وہ امریکا کے صدر بن گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایک منفرد انسان ہیں۔ انہوں نے جہاں بہت سے شعبوں میں اپنی من مانی کی وجہ سے امریکا کو نقصان پہنچایا وہیں ماحولیات کے شعبے میں ان کے اقدامات امریکا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ماحول کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں پر منفی اثرات مرتب کریں گے۔ ماحولیات کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے اٹھائے گئے منفی اقدامات میں سے چند اقدامات درج ذیل ہیں:

  • دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے 200 ممالک کی جانب سے منظور کیے گئے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکا کو باہر نکال لیا۔
  • گاڑیوں اور ٹرکوں سے خارج ہونے والے دھویں کے ماحوال پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے جو اقدامات براک اوباما کے دور میں اٹھائے گئے، ڈونلڈ ٹرمپ نے ان اقدامات کو منسوخ کردیا۔
  • نئے بجلی گھروں کی تعمیر سے مقامی افراد پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے مرتب کیے گئے پروگرام کا خاتمہ کردیا گیا۔
  • براک اومابا کے دور کے اس قانون کو کمزور کردیا جس کے تحت نیشنل پارکس اور دُور دراز علاقوں میں فضائی آلودگی کو کم کرنا مقصود تھا۔
  • اوباما کے جاری کیے گئے اس ایگزیکٹو آرڈر کو واپس لے لیا جس کے تحت وفاقی حکومت کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ آئندہ 10سالوں میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں 40 فیصد تک کمی کرے گی۔
  • جانوروں اور پرندوں کی معدوم ہوتی ہوئی اقسام کو بچانے کے لیے بنائے گئے قوانین میں اس انداز سے تبدیلی کی گئی کہ ان کو موحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رکھنا مزید مشکل ہوجائے۔
  • ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے موجود سائنسی اعداد و شمار پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
    • بجلی کے نئے بلب کی تیاری میں توانائی کا معیار برقرار رکھنے والی ان شرائط کو واپس لے لیا جو 2007ء میں جارج بش کے دورِ صدارت میں عائد کی گئی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان شرائط کو واپس لینے سے 2025ء تک کاربن کا اخراج 34 ملین میٹرک ٹن سالانہ تک پہنچ جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کی وجہ سے امریکا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: متنازع معاملات پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطرناک مؤقف

دنیا میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کام کرنے والے اداروں اور افراد نے اس وقت ضرور سکھ کا سانس لیا ہوگا جب امریکا میں ہونے والے عام انتخابات میں سابق نائب صدر جو بائیڈن کی فتح کا اعلان ہوا۔ جو بائیڈن کے انتخاب سے ماحولیات سے منسلک ماہرین اس لیے بھی خوش ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے اقدامات پر بہت زور دیا تھا۔

انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ خود فیصلے کرنے کے بجائے سائنسدانوں کی رائے کو اہمیت دیں گے اور اپنے تمام فیصلے ماہرین کی رائے کی روشنی میں کریں گے۔ جو بائیڈن نے اس بات کا بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آلودگی کی روک تھام میں ڈالی گئی رکاوٹوں کو دُور کریں گے اور اپنے اقتدار کے پہلے دن ماحول کی بہتری کے لیے اوباما دور کے اقدامات کا احیا کریں گے۔ جو بائیڈن کے مطابق وہ اوباما سے بھی زیادہ مستعد انداز میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی روک تھام کے لیے کوشش کریں گے۔

ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بیلمونٹ یونیورسٹی میں ہوئے آخری صدارتی مباحثے میں بحث کر رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بیلمونٹ یونیورسٹی میں ہوئے آخری صدارتی مباحثے میں بحث کر رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے اور جو بائیڈن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پوری دنیا اور خصوصی طور پر اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے اقتدار کے آغاز میں ہی امریکا کو دوبارہ ماحولیاتی اقدامات سے متعلق پیرس کلب میں واپس لے کر جائیں گے۔

ایک طرف جو بائیڈن ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پُرعزم ہیں اور ایک طرف ان کا دیرینہ اتحادی پاکستان ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے کام شروع ہوچکا ہے۔ پاکستان میں وزیرِاعظم عمران خان کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت اس وقت ملک بھر میں جنگلات کا رقبہ بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ اس حکومت کا وعدہ ہے کہ یہ اپنے دورِ حکومت میں ملک بھر میں 10 ارب درخت لگائے گی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے 2013ء سے 2018ء کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت کی اور اس دوران انہوں نے صوبے بھر میں ایک ارب درخت لگائے تھے۔ پاکستان میں ماحولیات کی اہمیت کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے لیکن خوش قسمتی سے موجودہ حکومت اس اہم مسئلے پر توجہ دے رہی ہے۔

اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان ہمیشہ زمانہ جنگ میں امریکا کا پسندیدہ اتحادی رہا ہے لیکن امن کے زمانے میں امریکا پاکستان کو نظرانداز کردیتا ہے۔

اس وقت جب دنیا بدل رہی ہے تو امریکا میں آنے والی نئی حکومت کو بھی بدلتے ہوئے حالات کے مطابق سوچنا چاہیے اور پاکستان کو ساتھ ملا کر عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان کے پاس افرادی قوت ہے اور امریکا کے پاس سرمایہ اور وسائل۔ ماضی میں پاکستان کی افرادی قوت کسی نا کسی شکل میں دنیا میں قیامِ امن کی کوششوں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ رہی ہے۔ یہ افرادی قوت ماحول کی بہتری کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیے: امریکی صدارتی انتخاب 2020: اُمیدوار جو بائیڈن

دنیا بھر میں ماحول کی تبدیلی ایک سنگیں مسئلہ ہے۔ امریکا اور پاکستان ساتھ مل کر اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مسلمان ممالک پر مشتمل ہے اور ان ممالک کی اکثریت کے ساتھ پاکستان اور امریکا دونوں کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اگر یہ دونوں مل کر ماحولیاتی تبدیلی کی اہمیت کو اجاگر کریں گے تو اس کا مثبت اثر ہوگا۔

امید ہے کہ پاکستانی حکومت کا جب بھی نو منتخب امریکی صدر سے باضابطہ رابطہ ہوگا تو دیگر معاملات کے ساتھ ماحولیاتی تغیر اور اس کے منفی اثرات پر ناصرف تبادلہ خیال ہوگا بلکہ اس عالمی مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم بھی کیا جائے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris Nov 20, 2020 03:20am
Every effort to protect the environment is worthwhile.